منگل، 18 جون، 2019

ڈاکٹر محمد مرسی کے کچھ قابلِ رشک کام




1۔ حافظ قرآن
  صدر مرسی نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا ۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”مسلمانوں میں بہترین انسان وہ ہے جو قرآن پاک سیکھ لے اور دوسروں کو سکھلائے۔“

2۔ کلام پہ اذان کو ترجیح
 ایک بار صدر مرسی اہم تقریر کر رہے تھے کہ اذان ہونے لگی۔ گویا نماز کا وقت آن پہنچا تھا ۔ صدر نے اذان کو نظر انداز کرکے تقریر جاری نہیں رکھی اور نہ ہی ایک منٹ کے لیے خاموش ہوئی بلکہ باآواز بلند فخر سے اذان دینے لگے ۔
ان کی اذان نے محفل میں موجود سبھی لوگوں کو مبہوت کر ڈالا ۔ نیز وہاں بیٹھے نوجوانوں کو احساس ہوا کہ ان کے حکمران بھی عاجزی و انکسار سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔

3۔ فجر کی نماز
  صدر مرسی پکے نمازی تھے ۔ حتیٰ کہ صدر بننے کے بعد بھی آپ نے مسجد میں نماز ِ فجر ادا کرنے کا عمل جاری رکھا۔ ادائی نماز کے سلسلے میں صدر مرسی اتنے پابندِ وقت اور سخت تھے کہ مصری دہریے وکمیونسٹ ان کا مذاق اڑانے لگے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ صدر کی عبادت مصنوعی ہے ۔ مگر محمد مرسی تنقید سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور اپنا معمول جاری رکھا ۔ اکثر خطبہ جمعہ کے دوران میں ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے جاتے ۔

4۔ اعلیٰ درجے کی ذہانت
مصری حکمران طبقے نے صدر مرسی پر ایک الزام یہ لگایا کہ وہ بے وقوف اور احمق ہیں، تبھی انھوں نے عدلیہ اور فوج سے لڑائی مول لے لی۔ مگر حقائق انھیں انتہائی ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ظاہر کرتے ہیں۔ حقیقتاً اِن جیسا دانش ور صدر پہلے کبھی مصریوں کو نصیب ہی نہیں ہوا تھا۔ صدر مرسی نے یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا سے میٹیریلز سائنس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ نیزآپ زقازیق یونیورسٹی مصر میں پروفیسر رہے۔

5۔ قصر صدارت نہیں فلیٹ میں قیام
  قاہرہ میں مصری صدر کے کئی محل واقع ہیں ۔ وہ کئی ایکڑوں پر محیط اور آسائشاتِ زندگی سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر سادگی پسند محمد مرسی نے صدر بننے سے قبل ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کسی صدارتی محل میں رہائش پذیر نہیں ہوں گے۔ سو انھوں نے قاہرہ میں ایک معمولی فلیٹ کرائے پر لیا اور اہلِ خانہ سمیت وہاں منتقل ہوگئے۔ تاہم سرکاری ذمے داریاں نبھانے کے لیے وہ مرکزی قصرِ صدارت میں آتے رہے ۔
جب صدر مرسی کے خلاف آل سعود کے چشم و چراغ شاہ عبداللہ نے جنرل سیسی ، حزب النور سلفی اور مصری عیسائی پادریوں اور اسرائیلی حمایت یافتہ افراد کو ریال ڈالرز دئیے اور احتجاج شروع ہوا ، تو اپارٹمنٹس کی لفٹ میں ان کے خلاف بیہودہ نعرے لکھے جانے لگے ۔ مگر صدر مرسی انھیں نظر انداز کر دیتے اور اس فلیٹ میں رہائش ترک نہ کی ۔ ذرا صدر مرسی کے فلیٹ کا موازنہ دیگر اسلامی حکمرانوں کی رہائش گاہوں سے کیجیے ۔ وہاں کے غسل خانے بھی صدر مرسی کے فلیٹ سے کشادہ اور شاہانہ طرزِ تعمیر رکھتے ہیں۔

6۔ خصوصی علاج قبول نہیں
جب محمد مرسی صدر تھے، تو ان کی بہن شدید بیمار ہوگئیں۔ جب مرسی بہن کی عیادت کے لیے اسپتال گئے ، تو ڈاکٹروں نے انھیں بتایا ”اگر آپ چاہیں ، تو بہن کا علاج امریکی یا یورپی اسپتال میں ہوسکتا ہے ۔ بس آپ کے حکم کی دیر ہے ، ہیلی کاپٹر انھیں لے کر روانہ ہوجائے گا۔“
مگر صدر مرسی نے ایسا حکم دینے سے انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا تھا ”میرے خاندان والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ میری بلند مرتبہ حیثیت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جائے۔“ چنانچہ صدر نے بہن کی خاطر اپنے اصول نہ توڑے ۔ آخر ان کی بہن نے عام مصری شہری کے مانند سرکاری اسپتال میں جان دے دی ۔

7۔ بے گھر بیوہ کی مدد
صدر مرسی کا شمار ان عظیم مسلم حکمرانوں میں ہوتا ہے جو عوام کے مسائل سے بے پروا نہیں ہوتے بلکہ ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔
صدر مرسی جب صبح سویرے سرکاری گاڑی میں قصرِصدارت جاتے ، تو انھیں راستے میں فٹ پاتھ پر ایک عورت کبھی بیٹھی کبھی لیٹی نظر آتی ۔ ایک دن انھوں نے اس کے سامنے گاڑی رکوائی ، اترے اور عورت سے دریافت کیا: ”تم فٹ پاتھ پہ کیوں رہتی ہو؟“
عورت نے بتایا کہ جب اِس کا خاوند مر گیا ، تو وہ دنیا میں تنہا رہ گئی ۔ سو وہ فلیٹ کا کرایہ نہ دے سکی اور مجبوراً فٹ پاتھ پر رہنے لگی ۔ صدر مرسی نے انھیں بتایا ”جب تک میں مصر کا حاکم ہوں ، کسی خاتون کو ایسی تکالیف برداشت نہیں کرنا پڑیں گی۔“
صدر مرسی نے پھر اپنے عملے کو حکم دیا کہ وہ عورت کے لیے عمدہ فلیٹ کا بندوبست کریں اور انھیں اتنی رقم دیں کہ وہ باعزت زندگی بسر کرسکے۔ افسوس کہ نگران حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی بیوہ سے ساری سہولیات چھین لیں۔

8۔ فلاحی سرگرمیوں میں سرگرم حصہ
صدر مرسی زمانہ طالبِ علمی ہی سے فلاحی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں ۔ 2004ء میں جب انڈونیشی علاقہ بندہ آچے سونامی سے تباہ ہوا ، تو محمد مرسی مصری وفد کے ساتھ وہاں پہنچے ۔ انھوں نے پھر سیکڑوں بے گھر افراد کو مالی امداد دی تاکہ وہ اپنے ٹھکانے تعمیر کرسکیں ۔
محمد مرسی عوام کی رائے کو سرفہرست رکھتے ہیں ۔ جب وہ صدر منتخب ہوئے ، تو شام کے حکمران ، بشارالاسد نے انھیں مبارک باد کا پیغام بھجوایا دیا ۔ صدر مرسی نے جواب دیا: ”میں آپ کو شامی عوام کا جائز نمائندہ نہیں سمجھتا۔“

9۔ دنیا میں سب سے کم تنخواہ لینے والے صدر
اب یہ چلن بن چکا ہے کہ صدر اور وزیراعظم پاکستانی کرنسی کے حساب سے سالانہ کروڑوں روپے حکومت سے لیتے ہیں ۔ بہت سے حکمران اپنی اعلیٰ حیثیت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے اور خوب مال بناتے ہیں تاکہ وہ بعدازاں اہلِ خانہ کے ساتھ ٹھاٹھ باٹھ سے رہ سکیں ۔
صدر مرسی بھی چاہتے تو عہدِ صدارت میں خوب کمائی کر سکتے تھے ۔ آخر وہ کرائے کے فلیٹ میں رہتے تھے ۔ کم از کم وہ اتنا مال ضرور بنا سکتے تھے کہ گھر خرید لیں ۔ لیکن ان کے رخصت ہونے کے بعد انکشاف ہوا کہ وہ دنیا میں سب سے کم سالانہ تنخواہ لینے والے حکمران تھے ۔ ان کی سالانہ تنخواہ صرف 10ہزار ڈالر تھی ۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جب فوجیوں نے انھیں گرفتار کیا ، تو یہ راز بھی کھلا کہ صدر مرسی نے اب تک اپنی کوئی تنخواہ نہیں لی تھی گویا وہ ملک و قوم کی خدمت مفت میں انجام دیتے رہے ۔

10۔ تصویر مت کھینچیے
  بعض عرب ممالک کے مانند مصر میں بھی یہ رواج ہے کہ عوام کے ”محبوب“ حکمرانوں کی تصاویر ہر سرکاری عمارت و عوامی مقامات پر لٹکائی جاتی ہیں ۔ مثلاً حسنی مبارک کے دور میں خصوصاً سیاح قاہرہ کے کسی حصے میں جاتا ، تو صدر کو گھورتا پاتا ۔
لیکن جب محمد مرسی نے صدر کا عہدہ سنبھالا ، تو انھوں نے حکم دیا کسی سرکاری عمارت میں ان کی تصویر نہ لگائی جائے ۔ اس کے لیے پانچ سو ملین کا بجٹ پہلے روایتی طور پر موجود تھا ۔ نیز ان کے حکم پر پچھلے تمام حکمرانوں کی تصاویر ہٹا کر اللہ کے نام کی تختیاں لگا دی گئیں تھیں مگر ان کے ہٹتے ہی فوجی جرنیلوں کی تصویریں پھر سرکاری مقامات پر سج گئیں ۔

11۔ خاتون اوّل نہیں ”اوّل ملازمہ“
  صدر مرسی نے ایک عزیزہ ، نجلا علی محمد سے شادی کر رکھی ہے ۔ وہ بھی شوہر کے مانند سادگی پسند اور غرور و تکبر سے عاری ہیں ۔ جب محمد مرسی نے صدارتی عہدہ سنبھالا ، تو نجلا علی محمد نے بیان دیا: ”مصر کے لوگ مجھے خاتون اوّل نہیں، اپنا اول ملازم سمجھیں۔“ کیا کسی اور اسلامی مملکت کی خاتون اوّل سے ایسے بیان کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

 اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں ۔ آمین 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں