اتوار، 30 جون، 2019

رنجیت سنگھ سکھوں کا مذہبی پیشوا کیسے بنا اور حکومتِ پاکستان نے ان کا مجسمہ بطورِ یادگار کیوں لگایا



   سکھ مذہب کی تاریخ مسلمانوں کےلئے تلخیات سے بھری پڑی ہے ۔ سکھ مسلم کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب سکھوں کے پانچویں گرو ، گرو ارجن دیو نے شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت پر شہزادہ خسرو کی حمایت کی ۔

     خسرو کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھیوں پر شاہی عتاب نازل ہوا ۔ ارجن دیو کو بھی قلعہ لاہور میں 30 مئی 1606ء کو سزائے موت دی گئی ۔

قلعہ لاہور کے قریب گوردارہ ڈیرا صاحب اسی کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا ۔

   بعد کی صدیاں مسلمانوں کی حکومت کے خلاف پنجاب میں سکھوں کی شورش کے اَن گِنت واقعات کی گواہی دیتا ہیں ۔ دو صدیوں سے زائد پر محیط اس سکھ مسلم آویزش میں سکھوں کی فتح کا استعارہ رنجیت سنگھ کے سر سجتا ہے ۔ جس نے مسلمانوں کو شکست فاش سے دوچار کیا ۔ 

     رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کی صدیوں سے قائم سلطنت کا خاتمہ کرکے خیبر سے لے کر تبت تک اور مٹھن کوٹ سے لے کر کشمیر تک کے مسلم اکثریتی خطے میں اپنی حکومت یعنی سکھ راج کی بنیاد رکھی ۔

  اسی فتح کی بدولت سکھ مذہب نے رنجیت سنگھ کو مہاراجہ اور شیرِ پنجاب کے خطابات سے نوازا ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سیاسی و مذہبی ہیرو اور سکھوں کے دس گروں کے بعد سب سے مقدس انسان بھی قرار پایا ۔ 

   یاد رہے کہ رنجیت سنگھ کے دور میں لاقانونیت اپنی انتہا کو چھو رہی تھی ، کمزور اور غریب شخص کو کوئی امان حاصل نہ تھی ۔ مسلم اکثریت کے سامنے ان کی مذہبی و سماجی تذلیل ہوتی تھی ۔ معاشرے میں اضطراب ، بے چینی ، بے حِسی اور اقربا پروری عروج پر تھی ۔ مسلمان ریاست کے شرفا ہونے کے باوجود کسمپرسی کی حالت میں تھے ۔ ان پر بلاوجہ بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے ، انکی جائیدادیں ضبط کر لی جاتیں اور ملسمانوں کے عبادت گاہ یعنی مسجدوں کی توہین کی جاتی ۔

    اسی دور میں گلاب ڈوگرہ نے مسلمانوں کو ٹھیس پہنچانے کے غرض سے نگر میں واقع جامع مسجد کو شہید کیا ، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر ہزاروں مسلمانوں کو موت کی نیند سلایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی ۔ 

  اقربا پروری ، کرپشن ، لوٹ مار ، قتل و غارت ، لاقانونیت ، غیر یقینی صورت حال اور افراتفری کی وجہ سے مسلمانانِ ہند ، سکھوں کے اس دور حکومت کو بدمعاشی یعنی ’’ سکھا شاہی ‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں ۔ رنجیت سنکھ کے عہد کے مظالم سے مسلمانوں کو نجات دلانے کےلئے ہی مسلمانانِ ہند نے سیّد احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ کی قیادت میں جہاد کا آغاز کیا تھا ۔ 

   سکھ مسلم آویزش کی تلخی کی انتہا یہ تھی کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے موقعے پر ہندؤں سیمت دیگر مذاہب کے برعکس سکھوں نے مسلم حکومت کے خلاف کھل کر تاجِ برطانیہ یعنی انگریزوں کا ساتھ دیا ۔ مسلمانوں کی حکومت پر انگریزوں کی غلامی کو ترجیح دی ۔

   البتہ پنجاب کے خود ساختہ پیغمبر کے پیرو کاروں یعنی قادیانیوں نے مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کا توڑ سکھوں سے رشتۂ الفت کی صورت میں نکالا تھا ۔ ابتدا ہی سے قادیانیوں کے سالانہ مذہبی جلسہ میں سکھ زعما کے خطاب کی روایت اب تک برقرار ہے ۔ سکھ گرو بشمول رنجیت سنگھ کے احترام کی روایت ان کے ہاں پختہ ہے ۔

    تقسیم ہندوستان کے وقت مغربی پنجاب میں کوئی سکھ اور مشرقی پنجاب میں کوئی مسلمان باقی نہیں رہا تھا ۔ البتہ مشرقی پنجاب میں قادیانیوں کا ایک قصبہ خود کو مسلمان کہنے والوں کی آبادی کے باوجود محفوظ رہا ۔

رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب بھی کرتار پور راہداری "کوریڈور" ( جسے بعض فقہا کرتارپور قادیانی کوریڈور بھی کہتے ہیں ، کا تسلسل دیکھائی دیتا ہے ۔ 


 قارئین ! یہ تھی مختصر سی تاریخ جس میں سکھوں اور قادیانیوں کا بخوبی جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس تحریر کی نوبت اس لئے آئی کہ موجودہ حکومت یعنی عمران خان کی ہدایت پر کرتارپور بن رہی ہے جس میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کو بطورِ یادگار لگایا جا رہا ہے ۔ جو مسلمانوں کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ 

   مستقبل میں اور بھی بہت کچھ کھلنے والا ہے ذرا انتظار کیجئے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں