جمعرات، 27 جون، 2019

کُلال



 بچپن میں جب ہم کھیتوں ، ندیوں ، دریا کے کناروں یا نہروں کی سیر کرتے تھے تو راستے پر کہیں نہ کہیں بکھرے پڑے ٹھیکرے نظر آتے تھے ۔ جو ٹوٹے ہوئے برتنوں کے گلے ، پیندے اور ٹکڑے ہوتے تھے ۔ برتنوں کے یہ ٹکڑے پہلے گھر کے کھوڑےدان میں پھینکے جاتے تھے جہاں سے ڈیرانی کھاد میں کھیتوں تک پہنچے جاتے تھے ۔ جبکہ سالم برتن یا تو گھر کے طاق میں ایک خاص اہتمام سے پڑے گھر کی زینت بڑھاتے یا چارپائیوں پر کھڑا ہوا لکڑی کا ڈھانچہ جسے گھڑونچا یا گھڑونچی کہتے ہیں ، پر گھڑوں کی صورت میں نظر آتے تھے۔ انتہائی احتیاط رکھنے کے باوجود کثرت استعمال کی وجہ سے اکثر برتن ٹوٹنے کا اندیشہ رہتا تھا ۔ جسکا ثبوت پشتو زبان کے ٹپہ سے ہاتھ آتا ہے ۔ 
مور تہ دی داسے جواب ورکڑہ 
منگے پہ گٹہ زہ پہ خٹہ اولیدمہ 

   بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ مٹی کا برتن جسے باسن ، بھانڈا اور ظرف بھی کہتے ہیں ہر گھر کی ضرورت تھی ۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جس میں مٹکا ، گھڑا ، قضلی یا مٹیالا برتن نہیں تھا ۔ اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے گھر کا ذمہ دار بہت سارے برتنوں کا انتخاب کرتا اور ٹھوک بجا کر مٹی کا باسن لیتا تھا ۔ 

   مٹی کے برتن بنانے والا ہنر مند کو کمھار کہتے ہیں ۔ کُم ترکی زبان کا کم ہونے یا " کم "درجہ کی معنیٰ میں مستعمل ہے جسے فوج کے چھوٹے افسر کو کمیدان کہتے ہیں ۔ جیسے اردو میں معمولی حیثیت کا مزدور اور کھیت پر کام کرنے والا کمیرا کہلاتا ہے ، یعنی کمی کمین ۔ اسی طرح ترکی
" کُم "اور ہندی زبان کا " ہار " جو بطور لاحقہ استعمال ہوتا ہے اور صفت و فاعلیت بناتا بناتا ہے ۔ جیسے چلن ہار کا مطلب ایک غریب مزدور کا ہے ۔ کمھار کو فارسی زبان میں کوزہ گر اور کلال بھی کہتے ہیں ۔ یہ دوسرا لفظ پشتو زبان کے ساتھ مشترک ہے ۔ 

 کمھار کی داستان بیان کرنے سے گدھے کا ذکرخود بخود آتا ہے کیونکہ کمھار کو برتن بنانے کےلئے مٹی کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ گدھے پر لاد کر لاتا ہے ۔ یعنی دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ جبھی تو کہاوت مشہور ہوا کہ " گدھا مرا کمھار کا ، دھوبن سستی ہو " ۔ کُلال گدھے پر مٹی لاتا تھا اور مٹی کے بغیر برتن بنانا ناممکن تھا ۔ اس لئے کُلال کے ہاں گدھے کی بہت زیادہ اہمیت تھی ۔ وہ چن چن کر اچھی مٹی کا انتخاب کرتا تھا ۔ اسے گھر لے جاتا ، پانی ملاکر اس کا کشتہ یا خمیر بناتا، نرم کرنے کےلئے اسے لاٹھی سے متواتر مارتا ، پھر چاک ( چرخی دان ) پر تھوڑا تھوڑا چرھاتا ، چاک ایک قسم کا پہیہ ہوتا جسے گھما کر برتن بناتا ، کلال اسی دوران تپنا کے ذریعے برتن کو ہموار کرتا ، جونہی مٹکا یا مٹکینا تیار ہوتا ، اسے کڑک دھوپ میں سوکھ جانے کےلئے دھوپ میں رکھا جاتا ۔ اس کے بعد کچے برتنوں کو پثراوے میں رکھنے کی باری آتی ۔ لیکن اس سے پہلے کمھار یا تو پہاڑوں کے ورشو میں گوبر کے سوکھے ہوئے اپلے تلاش کرتے یا اسے زمینداروں اور کسانوں سے خریدتے ۔ وہ پثراوے میں جلانے کےلئے گندم اور چاول کا بھوسا بھی لے آتا تھا ۔ ساتھ ہی وہ بارش نہ ہونے کی دعا بھی کرتے ، اگر بارش نہ ہو جاتی تو کلال قطار در قطار برتنوں کو پثراوے میں رکھتا جس پر وہ اپلوں کی ایک تہہ چڑھاتا ، یوں ہر طرف سے مزید اپلے رکھتا اور اسے اسے ایک طرف سے آگ لگاتا ، آگ پثراوے میں پھیل جاتی اور ایک وقت ایسا آتا جب سارے برتن پک جاتے تھے ۔  

   ہر گاؤں میں ایک یا دو کُلال ضرور ہوتے تھے جن کا ہنر بہت سارے لوگوں کے کام آتا تھا ۔ لوگ ان کے بنے ہوئے برتن خورد و نوش میں استعمال کرتے تھے ۔ اس لئے تو کہتے ہیں " گھڑے کمھار ، بھرے سنسار " یعنی ایک آدمی کام کرتا ہے ، بہت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ کلال کا سماجی حیثیت کچھ بھی ہو ۔ وہ حکومت سے زیادہ حکمت اور ہنر کا مالک تھا وہ ضرورت کے بنیادی اشیا ہی نہیں بناتے بلکہ ہماری ثقافت کو اپنے نقش و نگار کے ذریعے حسین اور دلکش بھی بناتے ۔ کیا ہوا کہ اس کا کمھاریپر بس نہ چلے ، تو گدھے کے کان اینٹھتے ۔ 

  لیکن اب نہ تو کُلال رہا اور نہ ہی اس کا پثروا ، نہ چاک رہا اور نہ ہی تپنا جس پر وہ غدود ( گلٹی ) کے مریض کا روحانی علاج کرتا تھا ۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ولایتی کلال نے ترقی کرکے مختلف دھاتوں کے برتن بنائے جبکہ ہمارے کُلال کے برتنوں کے ٹھیکرے بھی ہمیں نظر نہیں آتے ۔ ہائے افسوس ! ہم بھی اپنے کُلال کو ترقی یافتہ بناتے ۔ لیکن بقول قیمت گل استاد کہ ہمارے ہاں کتے پالنے والوں کو خان اور بھینس پالنے والے کو گجر کہتے ہیں ۔ جب ایسی حالت ہو تو محنت کرنے والوں کی خاک عزت ہوگی ۔ 

 ایک ہنر مند کلال کے ہاتھ کا بنایا ہوا مٹکا کیا کہتا ہے ، سنئے۔ دکان کی نمائش و زیبائش میرے بغیر نامکمل تھی ۔ شعراء میری تعریف میں قصیدے لکھتے تھے ۔ داستان گو لوک داستانوں میں مجھے سنہری لفظوں میں یاد کرتے تھے۔ میں خوبرو اور روشن جبین سوہنی کے باپ کا وہ شاہکار ہوں جسے دریا پار کرنے اور ماہیوال سے ملنے کےلئے سوہنی نے تیرنے کےلئے استعمال کیا ۔ شادی بیاہ کی تعریف اور جہیز میں میرے عدم دستیابی ناممکن تھی ۔ میرے وجاہت کو دیکھ کر میرے رکھنے کی جگہ کا خاص اہتمام ہوتا تھا ۔ نئی نویلی دلہن مہینوں تک دیکھ بال کرتی تھی ۔ مجھے احتیاط سے استعمال کرتی تھی اور میرے خاطر گھر کے افراد سے لڑتی تھی ۔ مجھے گودر کی سیر کراتی تھی ۔ مجھے احتیاط سے بغل میں دبوچ لیتی تھی ۔ اپنے خوبصورت انگلیوں کے پوروں سے میری صفائی کرتی تھی ۔ مہندی ملتے ہاتھ کے چلو بھر بھر کر مجھ میں ڈالتی تھی ۔ جب اس کی ہری چوڑیاں میرے گلے سے ٹکراتی تو دلوں کو مسرور کرنے والی ساز و آواز بجتی تھی ۔ اس کی چنری جب سرک جاتی تو گیلا پلو میرے چہرے کو نظر بد سے بچاتی تھی ۔ پھر وہ پلو کو بائیں ہاتھ کی کلائی سے ہٹا کر اپنے شانے پر رکھتی تھی۔ وہ اکڑوں بیٹھ جاتی اور شان بے نیازی سے مجھے اپنے رانوں پر رکھتی جس کے بعد ایک ہی جھٹکے میں مجھے بغل میں دبوچ لیتی تھی ۔ راستے میں ایک ہاتھ سے میرا گلہ اور دوسرا ہاتھ پیندے کے نیچے رکھ کر جوانی کا زور لگا کر مجھے تاج کی طرح سر پر بٹھاتی ۔ وہ اپنی چڑھتی جوانی کا جوش میرے حسن پر غالب کرنا چاہتی لیکن میرے بھی جوانی کے دن تھے ۔ میں بھی کسی دوشیزہ سے کم نہ تھا ۔ میں خود کو ان بدمست سہیلیوں کا دوست سمجھتا تھا ۔ جبھی تو وہ مستی میں آتے تو مجھے موسیقی کا آلہ سمجھ کر نبھاتے ۔ جس سے جوان بھی جوش شباب سے جھوم اٹھتے ۔ یہ جوانی کا موسم تھا ، میں بھی جوان تھا اور میرے ہم جولیاں بھی جوان تھیں ۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہوا ۔ کلال جس نے مجھے تخلیق کیا تھا ہر گاوں میں محض اس کا نام رہ گیا ۔ نہ درشخیلہ میں سعدخان پیدا ہوگا اور نہ گل محمد ۔ سب قصہ پارینہ ہوچکے ہیں ۔ 

جاتے جاتے موقع کی مناسبت سے چند ٹپے ملاحظہ ہوں : 

 پہ گودر جنگ د جینکو دے 
پورے را پورے پہ منگو ویشتل کوینہ
پہ گودر جنگ د جینکو دے 
لنڈے بازار ئی پہ گودر ولگونہ 
منگے ورکوٹے ورلہ جوڑ کڑئی
د خاپیرئ ملا د نرئ ماتہ بہ شی نہ 
    
                                                تحریر : ساجد ابو تلتان 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں