منگل، 25 جون، 2019

استاد کا مقام



  استاد معاشرے میں اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ معاشرے کو سدھارنے میں استاد کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوتی ہیں ۔ ایک بگڑے ہوئے سماج کو استاد ہی سدھار لا سکتا ہے ۔ استاد کا مقام بہت اعلٰی و ارفع ہیں ۔ استاد ہی کی بدولت بنی نوع انسان نے فرش سے عرش تک سفر کیا ۔ 

 استاد نے بہشت اور دوزخ کے سیر کرائی ۔ استاد کی عظمت اور رفعت کی اگر بات کی جائے تو دنیا میں کوئی بھی ایسا پیمانہ نہیں جو اس کو تول سکے ۔ لیکن اہل قلم لوگوں کے ہاں اس کی عزت اور عظمت کیلے کھلے دل میں بے پناہ محبت موجود ہوتی ہیں ۔

   استاد کو معمار وطن اسلئے کہا جاتا ہیں کہ یہ قوم کا پیکر تراشتا ہے ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے اساتذہ پر ہوتی ہیں ۔ کیونکہ استاد ہی سائنس دان ، سیاستدان ، کیمیادان ، ماہر فلکیات ، ماہر ارضیات ، ڈاکٹر ، انجینئر یا آسمان کی اونچائی تک اڑان کرنے والا ہوا باز استاد ہی کی بدولت بنتا ہیں ۔

    اگر اس دنیا میں رحمت اللعالمین استاد بن کر نہ آتے تو عرب کے بت پرست اور آتش پرست لوگوں جہالت کی اندھیروں سے اسلام کے اجالوں میں کون لے کر لاتا ۔ اگر استاد رحمت بن کر نہ آتے تو زندہ درگور بچیوں کی چیخ و پکار کون سنتا ۔ جس طرح خاتم النبین نے استاد بن کر عرب کے بھگڑے ہوئے معاشرے کو ایک مثال بنایا ۔ اسطرح وہ اس دور کے اساتذہ کےلئے ایک مشعل راہ ہیں ۔ اب چونکہ سماج بدل چکا ہے اور سائینس و ٹیکنالوجی کا دور ہیں تو زیادہ محنت لگن اور جذبے سے دونوں سرکاری اور نجی اداروں میں اساتذہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتی ہیں اور اس قوم وملت کو اچھے سے اچھے طریقے سے سنوارتے ہیں ۔

 اگر پاکستان اپنے وجود میں آنے کے ستر سال بعد بھی ترقی کی لکیر کے نیچے ہیں تو اس میں بڑی وجہ استاد کی تحقیر کرنا اور اسے حقارت کی نظروں سے دیکھنا بھی ہوسکتا ہیں۔اور جو وقار ملا ہیں وہ استاد کی مرہون منت ہی ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کو اگر دیکھا جائے تو وہاں استاد کی عزت رتبہ اور مقام وزیراعظم اور صدر سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ وہاں استاد کی عزت اتنی ذیادہ ہے کہ سڑک پار کرتے وقت ٹریفک روک جاتی ہیں ۔ مرتبہ اتنا بڑا کہ عدالت میں اسے کرسی پیش کی جاتی ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ استاد ہی سماج کا محسن اور معمار ہوتا ہیں ۔

  ڈاکٹر اشفاق احمد اپنی کتاب " زویہ " میں لکھتے ہیں کہ 
 " ایک روز میں ایٹلی میں گاڑی چلا رہا تھا میں نے ٹریفک سگنل توڑا جس پر میرا چالان ہوا ۔ اگلے ہی روز میں جج کے سامنے روسٹرم میں حاضر ہوا ۔ جب جج نے پوچھا کہ چالان جمع کرانے میں دیر کیوخ ہوئی ؟
 تو میں نے کہا کہ میں پروفیسر ہوں ، پڑھاتا ہوں ، صبح وہاں ہوتا ہوں ، اسلئے دیر ہوئی ۔ اس پر وہ جج اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہوا اور زور سے سے کہا کہ ایک استاد کٹہرے میں ۔۔! "  

 وہ اپنا نشست چھوڑ کر میرے پاس ائے اور مجھ سے معافی مانگی ۔ اور پھر پورے کٹہرے کے لوگ اکٹھا ہو کے مجھے باعزت اور باوقار طریقے سے وہاں سے رخصت کیا ۔ اس دن میں  نے ان قوموں کی ترقی کا راز جان گیا ۔

  لیکن ہمارے ہاں استاد کی تذلیل کرنا ، اسے گالیاں دینا اور دھمکانا ڈرانا نہ صرف طلباء بلکہ والدین کی بھی ایک معمول بن گیا ہیں ۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ایک تبدیلی سرکار کے ذمہ دار رکن کی سرکاری اساتذہ کے خلاف بیان بازی نے ایک نیا سماں باندھ لیا ہیں ۔ اس صاحب کو زرا جاننا چاہیے کہ آپ بھی اساتذہ کے سامنے بیٹھے ہوئے ہونگے۔

  تب آپ اس قانل ہوئے کہ وزیر بنے ۔آپ جو آج کاغذ پہ لکھے الفاظ اسمبلی ہاؤس میں کھڑے ہوکر زباں پہ ادا کرتے ہیں یہی اس استاد نے ہی اپک بغیر رٹھی رٹھائی کے سکھایے تھے ۔ آرے جناب زرا اپنے الفاظ پہ سوچوں ۔اپنے الفاظ کو واپس لو ۔ ان اساتذہ سے معافی مانگوں ۔ ورنہ استاد کی بد دعا رد نہیں ہوتی ۔ 

   اللہ مجھے اور آپ سب قارئین کرام کو استاد کی عزت والا بنائے ۔ آمین 
                         
                                  تحریر : شانزیب خان اخون خیل 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں