ہفتہ، 8 جون، 2019

قائد اعظم محمد علی جناح اور عید کا دن



آج میں آپ کی توجہ تاریخ کے  ایک ایسے واقعے کی طرف دلانہ چاہوں گا جس کو جان بوجھ کر ہمارا میڈیا نظر انداز کرتا ہے تاکہ ایسے واقعات سے ہم سبق نہ سیکھ سکیں اور نہ ہی ہم ایک حقیقی لیڈر کی خصوصیات کو جان سکیں۔

پاکستان کے قیام کے بعد  25 اکتوبر 1947 کو پہلی  عید الضحیٰ کا موقع آیا معروف اسلامی سکالر مولانا ظہور الحسن نے اس عید کو پڑھانے کا فریضہ انجام دینا تھا
قائد اعظم اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو بھی اس عید میں شرکت کرنا تھی۔

قائد اعظم کو نمازِ عید کے اوقات سے مطلع کردیا گیا تھا لیکن سب کے لئے یہ غیر معمولی صورتحال تھی کہ جماعت کا وقت ھو چکا تھا لیکن قائد اعظم اب تک عید گاہ نہیں پہنچ سکے تھے جب دیگر حکومتی عہدیداروں کو بتایا گیا کہ قائد اعظم وقت پر اپنے گھر سے روانہ ھو چکے ہیں اور  راستے میں ہیں اور  کچھ ہی دیر میں عید گاہ میں پہنچ جائیں گے تو حکومتی عہدیدار  نے مولانا ظہور الحسن سے گزارش کی کہ جماعت کو کچھ دیر موخر کیا جائے تاکہ قائد اعظم ہمارے ساتھ شامل ھو جائیں۔

 مولانا صاحب نے جواب دیا کہ میں نماز قائد اعظم کے لئے نہیں پڑھانے آیا ھوں اللہ کے لئے پڑھانے آیا ھوں چناچہ جماعت شروع کر دی گئ پہلی رکعت کے دوران ہی قائد اعظم عید گاہ پہنچ گئے اور حکومتی عہدیداروں نے ان کو راستہ دیتے ھوئے پہلی صف میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن قائد اعظم نے فوراً انکار کیا اور وقت میں مزید تاخیر کئے بغیر پچھلی صفوں میں جہاں جگہ ملی جماعت میں شامل ھو گئے۔

نماز ختم ھونے کے بعد قائد اعظم خطبہ ختم ھونے تک وہیں بیٹھے رہے جہاں انہوں نماز ادا کی تھی اور کوئی پروٹوکول حاصل نہ کیا بتایا جاتا ہے کہ نمازیوں کو بھی یہ محسوس نہ ھو سکا کہ قوم کا قائد اور سربراہ ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے نماز پڑھ رہا تھا اور ان کے ساتھ ہی بیٹھے خطبہ سن رہا ہے۔

آپ تصویر دیکھ سکتے ہیں قائد اپنا سر کو ڈھانپے خطبہ سن رہے ہیں بلکل اسی جگہ پر جہاں انہوں نے نماز ادا کی عید کے خطبہ کے اختتام کے بعد قائد اعظم آگے بڑھ کر مولانا ظہور الحسن سے ملے اور قائد نے  ان کی جرات ایمانی کی تعریف کہ وہ نماز کے لئے ان کے لئے رکے نہیں اور مقررہ وقت پر نماز ادا کی اور انہیں مزید تقویت بخشت ھوئے کہا کہ ہمیں ایسے ہی علماء کی ضرورت ہے جو اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں دکھائیں گے۔

 یہ تصویر اور واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ قائد اعظم اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تھے اور یہ واقعہ ان لوگوں کے منہ پر ایک تمانچہ ہے جو کسی بھی طرح سے آج کے سیاسی لیڈران کو قائد اعظم کے برابر لا کھڑا کرتے ہیں حق بات تو یہ ہے کہ آج کا ایک بھی سیاسی لیڈر قائد اعظم کے جوتے کی غبار کے برابر بھی نہیں۔

پیارے پاکستانی ساتھیوں ، آپ سے گزارش ہے پاکستان کی تاریخ پڑھیں اسلام کی تاریخ کو پڑھیں اقبال کو جانیں اور اپنے اندر ایک سچے لیڈر کی پہچان اور خصوصیت کو سمجھنے کی صلاحیت  پیدا کریں۔

                    اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں