بدھ، 19 جون، 2019

جالہ وانی ایک مشکل کام ہے



      ہوا بھر کر پھلائی ہوئی مشکوں پر تختہ ڈال کر بنائی ہوئی کشتی کو جالہ کہتے ہیں ۔ جبکہ چلانے والے کو جالہ وان کہتے ہیں ۔ جالہ کو ناؤ ، سفینہ ،  ڈونگا ، بیٹری اور  Boat وغیرہ بھی کہتے ہیں ۔ جن کے نام اور کام میں ایک قسم کی تفاوت ہے ۔ 

       سفینۂ نوح ، یتیموں کی وہ ناؤ جس میں حضرت خضر نے چھید کیا ـ کشتی نما ڈول ، بیٹری ، مچھیروں اور ماہی گیروں کی کشتی ، مسافروں اور سیاحوں کی boat ، کشمیری ہانجیوں کا گھر جو حقیقتا کشتی ہی ہوتی ہے اور جہاز پر احتیاطاً لے جانے والی کشتی جسے مچھوا ، ڈونگا اور لائف بوٹ کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

  کشتی چلانے والے کو ملّاح ، کشتی بان ، ناخدا ، مانچھی اور جالہ وان کہتے ہیں ۔ جن میں اکثر لوگوں کا یہ پیشہ نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا آیا ہے اور جو ان کی پہچان کا باعث بن چکا ہے ۔ لیکن جالہ وانی ذات نہیں ہے ۔ اس ضمن میں لاونس کہتے ہیں " کشمیر میں جب کسی ہانجی ،
( ہانجی کشمیر میں جالہ وان کو کہتے ہیں ) سے پوچھا جائے کہ تمہاری اصل کیا ہے تو وہ سفینہ نوح کی وجہ سے اپنے آپ کو خاندان نوح سے ظاہر کرتے ہیں ۔ جبکہ محمد دین فوق " تاریخ اقوام کشمیر " میں لکھتے ہیں کہ ہانجی کوئی ذات نہیں بلکہ پیشہ ہے پس خس قوم کے جس شخص نے ہانجیوں میں شمولیت اختیار کرلی یا کشتی رانی کا کام شروع کیا ، وہ ہانجی کہلایا ۔ یہی مثال جالہ وان کی ہے ۔ 

   دریائے سوات نے نامعلوم زمانے سے وادی کو قدرتی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ دونوں کنارے ماضی کی شاندار تہذیبوں کے علمبردار ہیں ۔ چونکہ تہذیبیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رہتی ہیں ۔ اسی لئے ہر زمانے میں دریائے سوات پار کرنے کی ضرورت آتی ہے ۔ جبھی تو اس کا کنارہ بہ بانگ بلند جالہ ، جالہ وان اور جالے گودر کی گواہی دیتا ہے ۔ 

    کہتے ہیں کہ خان گجو آسالہ اور خونہ سے ہوتے ہوئے دریا پار کرکے درشخیلہ اور بازخیلہ آتے تھے ۔ اسی طرح مئی 1827 کو سید احمد شہید بریلوی سکھوں کے خلاف لشکر ترتیب دینے کےلئے اسی گودر پر آئے تھے جبکہ خوشحال خان خٹک بھی مغل کے خلاف لشکر ترتیب دینے کےلئے دریا عبور کرکے دمغار پہنچے تھے ۔ غرض یہ کہ اشاڑے درشخیلہ سے لےکر بٹخیلہ تک متعدد جگہیں تاریخ میں جالہ وانوں کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ کبل ، چکدرہ ، مام ڈھیرئی ، جالہ وان کلے ، ڈیلے ، غوریجہ ، ننگولئی ، چارباغ ، چالیار ، آسالہ درشخیلہ اور آشاڑے ایسے گاوں تھے جہاں جالہ وان کھیت ( پٹے ) گاوں کے مشترکہ دفتر سے علیحدہ کیا جاتا تھا ۔ جس کا وہ حاصلات لےکر گاوں والوں کی خدمت کیا کرتے تھے ۔گاوں والوں کو دریا پار لگانا اور واپس لے آنا ، بارات لے جانا اور مردوں کی تلاش وغیرہ جالہ وان کے ذمہ تھے ۔ علاوہ ازیں وہ مسافروں کو دوسرے کنارے پہنچاتے ، ٹاپووں کی فصل لے آتے اور لکڑیوں کے تنے لنڈاکی تک پہنچاتے لیکن یہ کام وہ کسب کی بجائے معاوضہ لے کر کرتے تھے ۔ 

  جالہ یہ لوگ خوب بناتے تھے ۔ وہ بڑی مہارت سے قربانی کے بڑے جانور کی کھال اتارتے اور اس کی مشک بناتے ، پھر انار کے دانے اور بنج کے چھلکے پیس کر مشک پر لگاتے ، لکڑیوں کا ڈھانچہ ( چجکے ) تیار کرتے ۔ 15 سے 20 دن میں جالے کی مشک ( خیگ ) تیار ہوجاتا ۔ 

     مشک کو ہوا سے بھر دیا جاتا پھر اس پر لکڑیوں کا ڈھانچہ باندھ کر جالہ تیار کرتے اور دو چپو ہاتھ میں پکڑ کر پانی میں جالہ روانہ کرتے تھے ۔ عام لوگ بھی جالے کا کام کرتے تھے ۔ خاص کر سرکاری لکڑیوں کے وہ تنے جنہیں ہیٹر کہتے تھے ، کو لنڈاکی تک پہنچاتا اور بعد کے زمانے میں سلیپروں کی سمگلنگ یہ کام بہت زیادہ خطرناک تھا ۔ ریاست سوات کے زمانے میں اپنے گاوں کے میاں بخت روان ، صوبہ پاچا ، میاں فضل رحیم ، باچا اکاخیل ، محمد شعیب استاد اور راقم کے والد وغیرہ لکڑیوں کے تنوں کا ہیٹر لنڈاکی تک پہنچاتے تھے ۔ چونکہ یہ جالہ لکڑیوں کے تنوں کا ہوتا تھا اس لئے وزنی ہونے کی وجہ سے بعض اوقات بری طرح پھنس جاتا تھا ۔ بریکوٹ کے قریب اپنے گاوں والوں کا جالہ اسی طرح پھنس چکا تھا ۔ اندھیری رات میں سنسان راہوں پر بھوک ، جنم کی ہوک ہوتی ہے ایسے میں جان پر کھیلنے والی یہ مصیبت انسان کو اور پریشان کرتی ہے ۔ مجبورا انھیں قریب مسجد میں رات کاٹنی پڑی ۔ محمد شعیب استاد نے علی الصبح اپنی سریلی آواز میں اذان دی ۔ مقامی لوگ چائے پراٹے لے کر مسجد آئے ، ساتھیوں میں سے ایک بولے : کتنا اچھا ہوتا آپ آدھی رات کو اذان دیتے تو ہمیں ساری رات بھوکا رہنا نہ پڑتا ۔ 

    جالہ اور دریا سے متعلق بے شمار زبانی روایتیں مشہور ہیں۔ مثلاً ایک بار دریا میں بارات غرق ہوئی تھی ۔ لیکن زمانہ اور تاریخ معلوم نہیں ۔ اس طرح بارہ مسافر ایک ساتھ دریا عبور کرگئے ۔ کنارے پر پہنچ کر ساتھیوں نے گنتی شروع کی ۔ ہر بار تعداد گیارہ آتی تھی ۔ سخت پریشانی میں رونے کی سی صورت بناکر جالہ وان سے رجوع کیا ۔ اس نے کہا ، شمار کنندہ گنتی اپنے آپ سے شروع کریں ۔ ایسا کیا تو بندے بارہ پورا ہوئے ۔ انہوں نے جالہ وان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ ہی کی بدولت ہمارا کھویا ہوا ساتھی واپس مل گیا ۔ 

  جالے کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب بدترین سیلاب اور خراب حالات کے باعث سڑکیں بند اور رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے ۔ تمام تر آمدورفت اور تجارت جالے کے ذریعے ہوتی تھی ۔

  قارئین ! جالہ وانی کا کام بہت زیادہ مشکل ہے اس میں انسان اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر دوسروں کی جان ومال بحفاظت دوسرے کنارے تک پہنچاتا ہے ۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جان مارے سے ٹکہ میرا ہوتا ہے ۔ اسی لئے وہ ایک ایماندار اور باہمت شخص کی طرح کمائی کی خاطر جان توڑ کوشش کرتا ہے ۔ جب بات انسان کی عزت اور وقار پر آجائے تو انسان رزق حلال کی خاطر پہاڑ چھیرتا ہے ، میدان پھاندتا ہے ، ندی پھلانگتا ہے اور دریا پیرتا ہے ۔ جیسے ہمارے خلیل علی زمان ، فضل الدین ، ملوک ، ملیزے اور بخت منیر عرف چاڑا جالہ وان تھے ۔ جاتے جاتے یہ ٹپہ ملاحظہ ہو ۔ 
جالہ لاو کڑہ جالہ وان 
نا وختہ کیگی داشنا دیدن لہ زمہ 

 نوٹ : اس تحریر کے بیشتر معلومات ساکنان درشخیلہ بخت منیر ، محمد امین سپیندا اور سید عرب شاہ نے فراہم کیے ہیں۔ جن کےلئے میں ان کا مشکور ہوں ۔
                                             
                                                 تحریر : ساجد ابو تلتان 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں