رہبر تحریک خان عبدالولی خان فخرِ افغان ، بابائے امن خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان بابا کے ہاں گیارہ ( 11 ) جنوری 1917ء کو ہشنغر اتمانزئی میں پیدا ہوئے ۔ وہ باچا خان کے دوسرے بیٹے تھے ۔
ابتدائی تعلیم باچاخان بابا کے قائم شدہ آزاد سکول سے حاصل کی ۔ وہ سکول کے بنیادی طالبعلموں میں سے تھے ۔ انہی دنوں میں والد بزرگوار باچا خان گرفتار ہوئے جس کے خلاف خان عبدالغنی خان اور خان عبدالولی خان نے اپنے والد کی گرفتاری پر جگہ جگہ احتجاجی جلسے اور تقاریر کیں ۔
1931ء میں وہ مزید تعلیم کےلئے ڈیراڈون کے "یو پی" سکول چلے گئے ۔ باچاخان بابا کے جیل میں رہنے سے خان عبدالولی خان بابا کا بچپن بہت دکھی گزرا ۔ آنکھوں میں تکلیف اور شدید معاشی مسائل کی وجہ سے وہ اچھی تعلیم جاری نہ رکھ سکے ۔ وہ ڈیراڈون کے سکول سے واپس آئے اور اپنی زمینوں کی نگرانی شروع کی ، ساتھ ہی وہاں سے باقاعدہ اپنے عملی سیاست کا آغاز کیا ۔
جوانی ہی میں انہوں اپنے نے سیاسی سرگرمیاں اور تیز کیں ۔ 1938ء میں جب گاندھی جی صوبہ سرحد موجودہ
(خیبر پختونخواہ) کے دورے پر آئے تو خان عبدالولی خان بابا ان کے ساتھ ساتھ تھے ۔ 1942ء میں وہ اپنے والد بزرگوار کی خدائی خدمت گار تحریک میں شامل ہوئے ۔
جوانی ہی میں انہوں اپنے نے سیاسی سرگرمیاں اور تیز کیں ۔ 1938ء میں جب گاندھی جی صوبہ سرحد موجودہ
(خیبر پختونخواہ) کے دورے پر آئے تو خان عبدالولی خان بابا ان کے ساتھ ساتھ تھے ۔ 1942ء میں وہ اپنے والد بزرگوار کی خدائی خدمت گار تحریک میں شامل ہوئے ۔
1943ء میں وہ پہلی بار گرفتار ہوئے اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیج دئے گئے جہاں سے انہیں صحت کی خرابی کی وجہ سے بعد میں آزاد کیا گیا۔
1944ء میں وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں ۔ 1947ء میں وہ آل انڈیا کانگریس کے سنٹرل کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے اور کانگریس پارٹی صوبہ سرحد کے جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ برصغیر کے بٹوارے کے بعد جولائی 1948ء کو خدائی خدمت گار تحریک پر سرکاری قیامت کے دوران خاندان کے دوسرے افراد کے ہمراہ وہ بھی گرفتار کر لئے گئے اور ان کی ملکیت بھی ضبط کی گئی ۔ دوران اسیری ان کی زوجہ فوت ہو گئیں اور انہیں مچھ جیل بلوچستان بھیجا گیا ۔
نومبر 1950ء کو انہیں سبی جیل منتقل کیا گیا ۔ مئی 1951ء کو انہیں کوئٹہ جیل بھیجا گیا جہاں سے انہیں مئی 1952ء کو ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیجا گیا اور پھر وہاں سے ہری پور جیل بھیجا گیا ۔ 1953ء میں ساڑھے پانچ سال بغیر کسی مقدمے چلائے انہیں آزاد کیا گیا ۔ آزادی کے بعد انہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کے رہنما امیر محمد خان ہوتی کی بیٹی محترمہ نسیم بی بی سے 22 نومبر 1954ء کو دوسری شادی کر لی جو آج کل بیگم نسیم ولی خان کے نام سے مشہور ہیں ۔
1958ء کے مارشل لاء کے بعد وہ نیشنل عوامی پارٹی کے صدر چنے گئے ۔ پارٹی کی صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے ایوب خان کی مارشل لاء کے خلاف بھرپور جدوجہد کی ۔ صدارتی انتخابات میں مس فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔ اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں سرگرم رہے اسی لئے 13 نومبر 1968ء کو گرفتار کرکے ساہیوال جیل بھیج دئے گئے۔
انہوں نے 1970ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے بنگال میں فوجی اپریشن کی مخالفت کی جس پر جنرل یحییٰ خان طیش میں آگئے اور 26 نومبر 1971ء کو نیپ ( نیشنل عوامی پارٹی ) پر پابندی لگا دی جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے 21 دسمبر 1971ء کو ختم کی ۔ وہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور بطورِاحسن اپنی فرائض انجام دیتے رہے ۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں بنیں ۔
8 فروری 1975ء کو پھر سے انہیں گرفتار کرلیا گیا اور 10 فروری 1975ء کو پھر ان کے پارٹی ( نیپ ) پر پابندی لگا دی گئی اور انہیں 58 بلوچ اور پختون رہنماؤں کے ساتھ گرفتار کرکے حیدرآباد سینٹرل جیل بھیج دیا گیا جہاں مشہور حیدرآباد سازش کیس خصوصی ٹربیونل میں ان پر مقدمہ چلایا گیا ۔ 10 مئی 1976ء کو مقدمہ چلا ، مقدمے میں 455 گواہ تھے جب کہ 18 ماہ میں صرف 22 گواہوں کو بلایا گیا اور 5 جولائی 1977ء کے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
فروری 1981ء میں( ایم آر ڈی ) مومنٹ فار ریسٹورنگ آف ڈیموکریسی وجود میں آئی اور خان عبدالولی خان اس کے پہلے کنوینر منتخب ہوئے ۔ 1984ء میں وہ این ڈی پی کے صدر بنے ۔
1986ء میں چار ترقی پسند جماعتوں کے انضمام سے ایک نئی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی وجود میں آئی اور خان عبدالولی خان اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔
1990ء کے بعد عمر درازی کی وجہ سے مزید الیکشن میں حصہ نہ لیا اور زیادہ وقت مطالعے اور تحریر میں گزارا ۔ انہوں نے دو کتب شائع کیں جن میں " خدائی خدمت گار " اور " حقائق حقائق ہے " شامل ہے ۔
یہ عظیم پختون لیڈر اور رہبر تحریک 26 جنوری 2006ء کو طویل علالت کے بعد تقریبا 89 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے رحلت اختیار کرگئے ۔
پختون قوم کے یہ عظیم رہنما ولی باغ چارسدہ کے احاطے میں سپردخاک کیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ موصوف کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے ۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں