پیر، 30 ستمبر، 2019

عمران خان کی تقریر اور پاکستانی عوام کا سوچ



عمران نیازی کے تقریر پر وہ لوگ خوش ہونگے جن لوگوں نے پہلی بار اقوام متحدہ میں کسی کا تقریر سُنا ہو ۔ ایسے تقاریر ہم بچپن ہی سے سُنتے آرہںے ہیں ، لیکن عمل صِفر ہی نظر آتا ہے ۔ 

 ایسے تقاریر سے کچھ نہیں بنتا ، بلکہ مُقرر کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے ، جب وہ اقوام مُتحدہ میں " ایاک نعبدو و ایاک نستعین" سے شروع کرکے کشمیر اور فلسطین کے ایشوز پر جذباتی ڈرامہ بازی کے بعد "لا الہ اللہ" پر تقریر کا اہتمام کرتا ہے تو اُسی دوران ہی ریاست مدینہ کے خلیفہ اول عمران نیازی کے اپنے آزاد و خودمختار اور جمہوری ریاست  میں ڈاکٹروں کے ایک پُرامن احتجاج پر لاٹھیوں سے ایسا تشدد کیا جاتا ہے جیساکہ یہ پُرامن ڈاکٹرز کسی بڑے دھشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہو ۔ 

وہ تصاویر اور ویڈیوز کشمیر و فلسطین سے زیادہ دردناک منظر پیش کرتا ہے ، یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اسی ریاست میں ریاستی باشندوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات معمول بن گئے ہیں ۔

جس وقت عمران نیازی اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی بلند و بالا دعوے کررہے ہیں ، عین اُسی دن ایک امن پسند اور نہتے پشونوں کی آواز منظور پشتین(جو اس ریاست کے آئین و قانون کے اندر اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتا ہے) کو عمران نیازی کا یہ آزاد اور جمہوری ریاست جگہ جگہ چیک پوسٹس پر روک کر آگے جانے سے منع کرتے ہیں ۔  قسم قسم کے طریقوں سے اُس کو اور اُس کے دوستوں کو اذیتیں دیتا ہے ۔ 

اس طرح ایک دوست اپنی فریاد کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ سوات میں 95 دن والا کرفیو کسی کو یاد ہے ، میری تو والده شوگر کی دوائی نہ ملنے کی وجہ سے ٹی بی کا شکار ہوئی تھی ۔

    اقوام متحدہ میں دھشتگردی کے خلاف بات کرنے والے عمران نیازی کے اپنے ریاست مدینہ کے "جی ایچ کیو" میں احسان اللہ احسان ایک معزز مہمان کے طور پر دن رات گزارتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک غریب اور بے گناہ پشتون نوجوان "نقیب اُللہ محسود "بشمول چار سو کم و بیش لوگوں کا قاتل راؤ انور آزاد گھومتا پھرتا ہے ۔ 

عمران نیازی کے اپنے ہی ریاست میں مشال خان جیسے لوگوں کو دن دہاڑے قتل کر کے لاش کی بے حُرمتی کی جاتی ہے کیا یہ کوئی ریاست ہے یا جنگل....؟

عمران نیازی کے اسی ہی آزاد و جمہوری ریاست میں بے وجہ کرفی لگنے کی وجہ سے وزیرستان کے عوام گھروں سے نہیں نکل پاتے ۔

  دوسروں کےلئے حق چھینے والے عمران نیازی کے اسی اپنے ریاست مدینہ میں ابھی بھی بکاخیل کیمپ میں لاکھوں لوگ زندہ لاشوں جیسے زندگی گزار رہںے ہیں ۔
کیا کیا یاد کریں گے ۔۔۔ ؟ 
لیڈر تقاریر سے نہیں عمل سے پہچان سکتا ہے ۔ عمران نیازی صاحب ! پہلے اپنے دیش کی فکر کرو ، اس ریاست کے باشندوں کو اپنا حقوق دو ، اس ریاست کے اندر اقلیتی صوبوں کے باشندوں اور خصوصاً پشتونوں کو چھین سے زندگی بسر کرنے دو اور اِن کو اپنے وسائلوں کا اختیار دو ، نہیں تو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ۔

 "یوتھیئے " آپ کے تقاریروں سے لُطف اُٹھائی گے ، تالیاں بجائے گی ، اور باقی نہ امن آئے گا ،نہ انڈیا کا کُچھ کرسکو گے اور نا ہی کشمیر تیرا ہوگا ۔ 

اگر کچھ رہوگے تو بس ہینڈ سم ہی رہوں گے ، اور کشمیر کو پاکستان نہیں تو شاید پاکستان کو کشمیر بناؤ گے ۔ 
بقولِ شاعر ،
                     ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
                     انجامِ گلستان کیا ہوگا

                                           تحریر : شاداد ایسپزے

کچھ میاں نواز شریف کے بارے میں



میاں محمد نواز شریف 25 دسمبر 1949ء کو پیدا ہوئے ، آپ بچپن ہی سے کرکٹ کھیلنے کے بہت شوقین تھے ۔ نعیم بخاری ، عارف نظامی اور سلیم الطاف آپ کے سکول فیلو تھے ، لیکن آپ سے 3 سال سینئیر تھے ، بچپن میں آپ کو چار آنے جیب خرچ ملا کرتا تھا اورتب پیپسی کوک کی بوتل دو آنے کی آتی تھی ، سکول دور میں میاں نواز شریف کو ریگل چوک لاہور میں واقع معراج دین کے چنے کھانے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا ۔

میاں نواز شریف کے دادا حضور کا نام محمد رمضان تھا ، اور آپ امرتسر سے 20 کلومیٹر دور واقع گاؤں جاتی امرا تحصیل ترن تارن کے رہنے والے تھے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ جاتی امرا میں شریف فیملی واحد مسلم فیملی تھی اور اس گاؤں میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی ۔

میاں نواز شریف کے والد میاں شریف مرحوم 1930ء میں لاہور ہجرت کرآئے تھے ، اور یہی اپنا کاروبار شروع کیا ، پھر ان کے بہت سے رشتہ دار بھی جاتی امرا امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور آئے اور ان میں سے کچھ فیصل آباد شفٹ ہوئے ۔

پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد 1965ء میں میاں شریف اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے گاؤں جاتی امرا بھارت گئے تو ساتھ محمد نواز شریف کو بھی لے گئے جو اس وقت میٹرک کے طالبعلم تھے ۔

نہاری و سری پائے نہیں بلکہ میاں محمد نواز شریف کا فیورٹ کھانا آلو گوشت اور شپ دیگ ہے ، گاڑی میٹرک میں ہی چلانی سیکھ لی تھی پھر اوپل گاڑی خریدی اور پھر 1974ء میں فورڈ مستانگ خریدی لیکن کچھ عرصہ بعد مرسڈیز 450 لے لی ۔

محمد نواز شریف نے جب پہلی بار لاہور تا اسلام آباد موٹروے بنایا تو عوام کےلئے کھولنے سے قبل اس کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے خود اس پر گاڑی چلائی اور رفتار 230 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچائی تھی اور زندگی میں اس سے تیز گاڑی کھبی نہ چلائی ۔

میاں نواز شریف کے والد صاحب نے مری میں 1960ء میں گھر بنایا تھا اور بچپن سے ہی میاں صاحب مری والے گھر میں رہنے جاتے رہے ہیں ، لاہور میں آپ کا چوک دالگرہ میں ایک حویلی نما گھر ہوا کرتا تھا جہاں آپ بچپن میں رہا کرتے تھے ۔ 

قیام پاکستان کے وقت میاں شریف کی فیکٹری میں 100 ملازم تھے اور انڈیا سے لوگوں نے آپ کے 10 لاکھ روپے ادا کرنے تھے جو قیام پاکستان کی وجہ سے انڈیا میں ہی رہ گئے تھے ، جب اتفاق فونڈی کو قومیا کیا گیا تو اس وقت آپ کے 7500 ملازم تھے اور بہت وسیع کاروبار تھا ، اس وقت اتفاق فونڈی میں توپ کے گولوں کے علاوہ روڈ رولرز ، تھریشروغیرہ بنتے تھے ، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران افغانستان ، سعودیہ عرب وغیرہ جاتی تھی ۔

آپ کو جوانی میں قیمتی گھڑیاں اور جوتے پہننے کا بہت شوق تھا اور آپ کے پاس قیمتی گھڑیوں کی خاص کلیکشن موجود تھی ۔ 1969ء میں آپ انگلستان اور یورپ شاپنگ کرنے گئے تھے ۔

                   تحریر : ســــلطان رحمان شــاہ بخاری

جمعہ، 27 ستمبر، 2019

ڈی ایس پی سرکل مٹہ سیاسی بنیادوں پر تبدیل




سوات کی تحصیل مٹہ کے سرکل ڈی ایس پی پیر سید خان کو سیاسی بنیادوں پر تبدیل کرکے سی پی او حاضر ہونے کے جاری کردئے گئے ۔ 
ڈی ایس پی سرکل مٹہ کو فوری طور پر سی پی او حاضر ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے ۔ 
ذرائع کے مطابق چند روز قبل تحصیل مٹہ کے نواحی گاوں کوزہ درشخیلہ میں مسجد تنازعہ پر  جے یو آئی اور پی ٹی آئی کارکنوں میں تصادم کے دوران پی ٹی آئی کے مقامی رہنماء اور وزیر اعلی کا قریبی ساتھی پر بھی مقدمہ درج کرکے جیل جانا پڑا ۔ 
جس کی وجہ سے مبینہ طور پر ڈی ایس پی سرکل مٹہ کو  تبدیل کرتے ہوئے انہیں سی پی او حاضر ہونے حکم دیا ہے ۔ 

27 ستمبر،بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کا یومِ انتقال



نامور پاکستانی سیاستدان ، سابق اپوزیشن لیڈر اور بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان 27 ستمبر ، 2003ء کو اسلام آباد میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پائے تھے ۔ 
انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہونے والے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا ، لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ 
آپ پوری عمر آمروں کے خلاف لڑتے رہے ، اور اپنی آخری لمحات میں بھی " جمہوریت ، جمہوریت " پکارتے رہے ۔ وہ تحریک بحالی برائے جمہوریت کے صدر ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ ، ڈیموکریٹک کمیٹی ، قومی اتحاد اور اے آر ڈی کے سربراہ تھے ۔ آپ جنرل پرویز مشرف کے تلخ نقادوں میں سے ایک تھے ۔ 
 
       یوں تو محفل سے تری اٹھ گئے سب دل والے 
                   ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں 

قاسم سوری کی جیت کالعدم قرار ، حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم



انتخابی ٹریبونل نے حلقہ این اے 265 کوئٹہ دوم کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم جاری کردیا ۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری اس حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے ، الیکشن ٹریبونل نے ان کی جیت کو کالعدم قرار دیا ۔ 
بی این پی کے نواب زادہ رئیسانی نے بی اے پی ایس کے قاسم سوری کے فتح کو چیلنج کیا تھا ۔ ان کی درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام ڈالے گئے ووٹوں کی جانچ کی ۔ جن میں 52,756 ووٹ جعلی نکلے ۔ 
اس کے علاوہ بعض CNIC کے نمبر غلط تھے ، جس کی نادرا میں کوئی ریکارڈ نہیں تھی ۔ اس شناختی کارڈ کی نمبروں پر متعدد ووٹ ڈالے گئے تھے ۔

بدھ، 25 ستمبر، 2019

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نواز شریف کے نام خط



                             بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ 
محترم جناب وزیر اعظم صاحب !
السلام علیکم ۔
”۔۔۔۔ مجھے 13 مئی کی DCC میٹنگ میں یہ دیکھ کر سخت جھٹکا لگا تھا کہ شُرکاء کی اکثریت ایٹمی دھماکوں کی خلاف تھی ، اور پاکستان کےلئے ایک قیامت صغریٰ کی پیشن گوئی کر رہے تھے ۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ ایک غیر ملکی سربراہ نے تقریباً دس کروڑ ڈالر آپ کے پرائیویٹ اکاونٹ میں ڈالنے کی پیش کش کرکے آپ کو خریدنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن یہ لوگ یقیناً اس بات سے ناواقف تھے کہ نواز شریف کو خریدا نہیں جاسکتا ، کیوں کہ اُن کےلئے پاکستان کی مفادات سب سے افضل ہیں ۔ 
  مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ان چار شُرکاء میں شامل تھا ، جنہوں نے آپ کی غیر مشروط حمایت کی کہ آپ بھارت ، خاص طور پر لال کرشن ایڈوانی کو منہ توڑ جواب دیں ۔ مجھے اس میں رتی برابر بھی شک و شبہ نہیں کہ کوئی بھی دوسرا سویلین یا ملٹری حکمران یہ جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ غیر ملکی دباؤ ، دھمکیوں اور رشوت کی لالچ کی موجودگی میں ایٹمی دھماکے کرسکے۔ 
ہم سب نے ایک دن اس دنیا کو خیرباد کہنا ہے لیکن تاریخ آیندہ نسلوں کو یہ یاددہانی کراتے رہے گی کہ نواز شریف نے پاکستان کے وجود ، آزادی اور وقار کو اپنی حکمرانی پر ترجیح دی ۔
محترم وزیراعظم اللہ تعالیٰ آپ کو اچھی صحت اور درازی عمر عطاء فرمائے تاکہ آپ اپنے اس وطنِ عزیز کی برس ہا برس خدمت کرسکیں ، ( آمین ) “۔
   نہایت مؤدبانہ آداب کے ساتھ آپ کا خیر اندیش ۔۔۔
                                                 ڈاکٹر عبدالقدیر خان 
                                                 19 اگست ، 1998ء 

اندھیر نگری چوپٹ راجا،ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھا جا​



بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی یا ترکاری ، اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے ۔ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بے وقوف یا نالائق ہو تو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہو جاتی ہے ۔

یہ کہاوت عام طور پہ ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ ، ملک ، شہر یا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے بُرے کی تمیز نہیں ، بد نظمی ہے ، لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا ۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزرے جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی ۔ چاہے سبزی ہو یا مٹھائی ۔ سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے ، یعنی ایک ٹکے کا ایک سیر ۔
اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا ۔ گرو سے کہنے لگا ، "یہی رہ جاتے ہیں ۔ مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے "۔

گرو نے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں جہاں اچھے اور بُرے میں کوئی فرق نہ نہیں ، لیکن چیلا نہ مانا ۔ گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ۔ ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھا کھا کر خوب موٹا ہوگیا ۔

 ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے مار دیا ۔ سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑ سکے ۔  مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے ۔ راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ اندھیر نگری تو تھی ہی ، اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا ۔ اس بے وقوف راجا نے حکم دیا ، " کوئی بات نہیں ، جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا ۔ شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہو اسے پکڑ کر پھانسی دے دو ۔ انصاف ہو جائے گا "۔ 

ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا ۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور پھانسی دینے چلے ۔ اتفاق سے گرو جی دوبارہ وہاں سے گزرے ، چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی ۔ 

گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا ، "میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ۔ یہاں بُرے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں ۔ خیر اب کوئی تدبیر کرتا ہوں "۔ 

یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا ، "اسے چھوڑ دو ، مجھے پھانسی دے دو ، تمھاری مہربانی ہوگی "۔ 
سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا ، کیوں؟
گرو نے جواب دیا ، "اس لئے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے ۔ اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنّت میں جائے گا "۔

یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے ۔ 
کوتوال نے یہ سنا تو کہا ، "سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو "۔
اس طرح پورے شہر میں "مجھے پھانسی دو ، مجھے پھانسی دو" کا شور مچ گیا ۔ 
راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا ، "جنّت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے ۔ پہلے مجھے پھانسی دو"۔
پس راجا کو پھانسی دے دی گئی ۔ اس طرح چیلے کی جان بچی اور گرو جی اسے لے کر بھاگے ۔ 

منگل، 24 ستمبر، 2019

ملک بھر کے مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے



ملک بھر کے مختلف شہروں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.1 ریکارڈ ہوئی ۔ 

ذرائع کے مطابق اسلام آباد ، پشاور ، کراچی اور لاہور کے علاوہ آزاد کشمیر میں بھی جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ 

 آزاد کشمیر کے علاقے میر پور میں زلزلے کی وجہ سے مین شاہراہ (جاتلاں) زمین میں دھنس گئی ، جس کی وجہ سے کئی گاڑیاں الٹ گئیں ۔ 

جبکہ عمارت کی دیوار گرنے سے چار افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے ۔ ہسپتال انتظامیہ نے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔ 

ڈپٹی ڈائریکٹر میٹ کے مطابق اب تک کئی افٹر شاک بھی محسوس کئے گئے ہیں ۔

آزاد کشمیر کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ پاک آرمی کی جانب سے امدادی ٹیمیں بھی روانہ کی گئی ہیں ۔

پیر، 23 ستمبر، 2019

٢٣ ستمبر ، پختون کلچر ڈے



انسانی زندگی روزِ اوّل سے تعلیم و ہنر ، خوشی و راحت ، معاشی اور معاشرتی آسودگی ، ذہنی خود نمائی اور ابدیت کے اعلیٰ تصوّر کا حامل رہی ہیں ۔ 
کلچر و ثقافت اور رسوم و رواج اسی تنوع و وسعت اور معاشرتی ضروریات کو پوری کرنے کےلئے ترتیب دئے گئے ہیں ۔ بلاشبہ کلچر و ثقافت ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں اور ہر قوم کو اپنی روایات و رسوم پر فخر ہوتا ہے ۔ 

ثقافت ، کلچر یا جسے پشتو میں”دوود“ یا ”کلتور“ کسی قوم کے مادی اور غیر مادی چیزوں پر مشتمل مجموعی عوامل ہوتے ہیں ۔ جن میں لباس کے علاوہ اُس قوم کے عقائد ، تمدن اور علم و فنون ، جذبات و احساسات اور معاشرے میں دوسرے انسانوں کے ساتھ معاشرتی روابط شامل ہوتے ہیں ۔ 

 یہی خصوصیات مل کر قوم اور قومیت کی تشکیل کرتے ہیں ۔ کسی قوم کی یہ علیحدہ واضع قومی روح ، مخصوص عقلی مزاج ، قومی روایات اور مخصوص رسم ورواج اور اس قوم کے شاندار تمدن میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ اسی لئے ان چیزوں کی پہچان کرنا ہر ہمدرد فرد کی قومی و اخلاقی فرض بنتا ہے ۔ یہ ہمارا قومی فریضہ بھی بنتا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی و گلوبل وِلج کے اس تیز رفتار دوڑ میں اپنی قوم کے ان افکار و خیالات کا بھر پور خیال رکھیں ۔ جن کا مجموعی نام پشتون ثقافت ہے ، جسے پشتو میں (پشتون ولی) کہتے ہیں ۔

پخت ، پکت ، وہ قدیم نام ہیں جن سے پختون(پشتون) اور پکتیکا (پشتونخوا) کے ناموں کا ریشہ ہیں ۔ پشتو ، پشتونوں کی زبان ، اور ”پشتون ولی“ یا ”دوود“ ان کی رہن سہن کے عادات و روایات کا نام ہے ۔

ان روایات میں جرگہ ، ایمان داری ، ملی غرور ، ننواتئی ، عہد و وفا ، جنگ کے قوانین ، آزادی و حریت ، مہمان نوازی ، بدرگہ ، ملی استقلال ، چیغہ ، نسل و روایات کی پاسداری ، ملی کھیل وغیرہ سرفہرست ہیں ۔ جن میں پشتونوں کی معاشرتی رہن سہن کے نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کیا جاتا ہے ۔ یہ روایات و عادات پشتونوں کے روزمرہ زندگی میں ایک دستور یا آئین کی حیثیت رکھتے ہیں ، اور ان پر عمل نہ کرنے والے کو پشتون معاشرے میں کم نظری سے دیکھا جاتا ہے ۔

اسی خاطر سے پشتون تاریخ ، روایات اور قومیت بارے احساسات کو اُجاگر کرنے کےلئے دنیا بھر میں ہر سال ۲۳ ستمبر کو "پشتون کلچر ڈے" کی مناسبت سے شایانِ شان طریقے سے منایا جارہا ہے ۔

                                          تحریر : اختر حسین ابدالؔی

بدھ، 18 ستمبر، 2019

عدالت کا محسن داوڑ اور علی وزیر کو رہا کرنے کا حکم



   بنوں کے ہائیکورٹ بنچ نے پشتون تحفظ مومنٹ کے اسیر رہنماؤں اور ممبران قومی اسمبلی کو فوری رہا کرنے کا حکم جاری کردیا گیا ۔ 
  دونوں رہنماء خڑکمر واقعہ کیس میں گزشتہ چار مہینوں سے قید تھے ۔ دونوں اراکین کی جانب سے سینئر وکیل عبدالطیف آفریدی اور سنگین خان ایڈوکیٹ نے دلائل دئے جس کے بعد عدالت نے ان کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ۔ 

جمعہ، 13 ستمبر، 2019

کشمیر کی لہو لہو سرزمین



  مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو کئی ہفتے گزر گئے ہیں ۔ مسلسل کئی ہفتوں سے انسانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے ۔ موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے ۔ تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ شہر ویراں اور بازار سنسان پڑے ہیں ۔ خوراک اور ادوایات کی شدید قلت ہے ۔ غرض یہ کہ جنت نظیر وادی میں تمام معمولاتِ زندگی معطل ہوچکے ہیں ۔ 

   اس سے بڑھ کر المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں بے آبرو ہو رہی ہیں ۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں ۔ ہزاروں گھروں کے چراغ بجھ رہے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر لہو لہو ہے ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ عالم اسلام کے چند ممالک اظہارِ تشویش تو کرتے نظر آرہے ہیں ، لیکن شاید آگے آکر مدد سے ڈر رہے ہیں ۔ پچاس سال بعد کشمیر کی ہولناک صورتحال پر اقوام متحدہ کا اجلاس ہوا ، تو وہ بھی محض اظہارِ تشویش تک محدود رہا ۔ کشمیری عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ( یو این او ) کا کام صرف اجلاس بلانا تھا ، جو انہوں نے بلالیا اور یوں ان کا فرض پورا ہوا ۔ کشمیر کی گلی گلی میدان جنگ کا سماء پیش کر رہی ہے ، اور ہمارے حکمران یہاں ٹویٹ پہ ٹویٹ فرما رہے ہیں ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اہم مسلئے پر بھی ہم اپنی سیاست چمکا رہے ہیں ۔ 

بھارت جو کشمیریوں کی ہر آس اور امید کو ختم کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا ، آج پوری تیاری کے ساتھ کشمیر پر حملہ آور ہوکر بیٹھا ہے ۔ ظلم ، نفرت اور جبر کے وہ باب درج ہو رہے ہے ، جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔  

  قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی "شہ رگ" قرار دیا تھا ۔ کیا بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کےلئے یہ کافی نہیں کہ انہوں نے پاکستان کی اسی شہ رگ پر حملہ کیا ہے ؟
اس کے بعد ہم ابھی تک اس انتظار میں کیوں ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرے تو ہم جواب دیں گے ؟ 
    72 سالوں سے ہم کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی تو منا رہے ہیں ، اظہار افسوس تو کر رہے ہیں پر سبق حاصل نہیں کر رہے ۔ بجائے ہمارے اگر سبق حاصل کیا ہے تو وہ بھارت نے کیا ہے ، جس نے پوری تیاری کے ساتھ کشمیر پر ہاتھ صاف کرلیا ۔ ایسا کہنا بھی غلط ہوگا کہ پاکستان خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے ۔ پاکستان ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کر رہا ہے اور پوری دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دیکھانے کی کوشش میں دن رات لگا ہوا ہے ۔

   پاکستان چاہتا ہے کہ کسی طرح اس اہم مسلئے کا پُرامن حل نکالا جائے ۔ لیکن بھارت مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔ بھارت اس مسلئے کو تھرڈ ورلڈ وار کی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان جنگ کے حق میں ہیں ۔ لیکن پاکستان پر جنگ مسلط کی جا رہی ہے ۔ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کےلئے آخری حد تک جانا ہوگا۔ اگر نہیں تو جو خون کی ہولی بھارت کشمیر میں کھیل رہا ہے اس سے کشمیر کو بچانا مشکل ہوجائے گا ۔

  اب وقت آگیا ہے کہ ہم لفظی گولہ باری اور اظہارِ یکجہتی کے بجائے اپنے کشمیری بھائیوں کےلئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے اور جنّت نظیر وادی کو بھارت کے پنجے سے چھڑائیں ، تا کہ روز قیامت جب ہم اللہ کے حضور پیش ہوں ، تو شرمندگی نہ ہو کہ ہمارے پاس ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ لڑنے کی صلاحیت بھی تھی ، مگر اس کے باوجود بھی ہم کشمیر کی مدد نہ کر سکے ۔ میں تمام اسلامی ممالک کو یہ بات واضح کرتا چلوں کہ یہ وقت خاموش تماشائی بیٹھنے کا نہیں ہے اور نہ ہی یہ جنگ صرف پاکستان کی ہے ۔ بلکہ یہ جنگ پوری عالم اسلام کا ہے ، جو ہمیں کمزور کرنے کی سازش ہے ۔ ہمیں دشمن کی اس سازش کو ناکام بنانا ہوگا ، اس مشکل وقت میں ہمیں مل کر یک جانا چاہئے ، اور دشمن کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے ۔

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کشمیر کو اپنے حفاظت میں رکھے ، آمین !
                      
                     
                                 تحریر : شانزیب خان اخون خیل 

جمعرات، 12 ستمبر، 2019

یوسف زئی پشتون اور رقص



ناچ گانا ثقافت کا اہم جُز ہے جبکہ موسیقی ایک فطری تحفہ اور روح کی خوراک ہے ۔ بقول امامِ غزالی " یہ روح کی تار چھیڑتی ہے اور اس میں عشق اُبھارتی ہے "۔

 داتا گنج بخش کے مطابق یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہے ، تو نظام الدین چشتی اُسے دل کی صفائی کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
    ٹھیک اسی طرح ناچ کو انسانی اعضاء کی شاعری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

 رقص محض گھومنے ، جھومنے ، اُچھل کود اور چکر کھانے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک رقاص کے دل کو ہلکا کر کے اسے فرحت بخش کیفیت میں بھی لاتا ہے ۔ انسان اکثر خوشی یا ذوق و شوق میں بے خود ہوکر جھومنے کی کیفیت میں آتا ہے ۔ یہ وجد آفرینی اور سرمستی کی کیفیت عارفان حق کی ہوتی ہے جو وجد کے عالم میں سرشاری اور بے خودی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ پنجاب کے مشہور رومانی مثنوی ” ہیرا رانجا “ کے خالق حضرت پیر وارث شاہ وجد میں آتے تو رقص کیا کرتے تھے ۔

 الغرض اعضاء کی موزوں جنبش جیسے رقص یا ناچ کہتے ہیں دنیا کی ہر قوم میں موجود ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ایک ملک کے مختلف حصوں میں اس کی جدا جدا اقسام ہیں ۔ جیسے ہمارے ملک میں خواتین دائرہ بنا کر ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں اور جھومر ناچ پیش کرتے ہیں ۔ سندھ میں جمالو اور خیبر پختونخواہ کا اتنڑ اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں ۔ ماسوائے یوسفزیوں کے دوسرے تمام قبائل مشترکہ رقص کے قائل ہیں ۔ وہ رقص کو ثقافت کا اہم جُز سمجھ کر اس کا پابندی سے اہتمام ہی نہیں کرتے بلکہ پرچار بھی کرتے ہیں ۔ لے دے کے ایک ” شاڈولہ “ ہم سے منسوب تھا ۔ لیکن ہم نے اس کو بھی رواج نہیں کیا ۔ اس لئے ہم میں انفرادی ناچ بھی پنپ نہ سکا ۔ جبھی تو یہاں رقاص اور رقاصہ باہر سے آتے تھے ۔ جنہیں پیسے دے کر نچایا جاتا تھا ۔

  یوسف زئی عام طور پر ناچ خواتین کا کام سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہاں نچیاں کم اور نچنی زیادہ تھی ۔ ان میں مردوں کےلئے ناچ بے عزتی کی بات ہے ۔ شادی بیاہ گھر کی خواتین گھروں میں ناچتی تھیں ۔ حجرے کےلئے پیشہ ور فن کار (جنہیں عرف عام میں " ڈمان " کہتے ہیں) بلائے جاتے تھے ۔ ان پر بے تحاشہ دولت لٹائی جاتی تھی ۔ اس کے باوجود اکثر مجلس شاندار نہ ہوتی کیوں کہ فن کاروں کی نظر فن سے زیادہ دولت پر ہوتی تھی ۔ ایک رقاصہ ایک چکر لگا کر میدان کے بیچ میں آتی ۔ جہاں بدن ہلاکر ایک دو چھلانگیں لگاتی ۔ جبکہ دوسری رقاصہ پیسے بٹورنے کی خاطر تیزی سے گھومنا شروع کرتی ۔ سازینے بھی ان کی چال کے ماتحت تھے ۔  جو کھبی مختلف سازوں پر بجائے جانے والی دھن تیز کرتے ۔ کھبی باجا بجانے والا سازندہ یا طبلہ نواز مدھم لے میں موسیقی کا انداز بدلتے ۔ ادھر ڈھونک بجانے والا مدھم پڑجاتا گویا وہ رقاصہ کو لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہوتا ۔ جس میں وہ بدن ہلاتی اور آہستہ آہستہ زمین پر پیر مار کر گھنگروں کی آواز نکالتی ۔ پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر گھوم جاتی ۔ جس میں ناچ کم اور اداکاری زیادہ نظر آتی تھی ۔ یعنی تین گھنٹوں کی مجلس میں 20 منٹ ناچ ہوتا باقی وقت ویسے صرف کرلیتے ۔ اصلی ناچ تب ہوتی جب ان پر پیسوں کی بارش شروع ہوجاتی ۔ ایسی مجالس شادی بیاہ اور لڑکے کے ختنے میں منعقد کیے جاتے تھیں ۔ 

صرف نرتکی ( رقاصہ ) ناچ نہیں کیا کرتی تھی بلکہ نرتک ( رقاص ) بھی خوب ناچتا تھا ۔ یہ رقاص بھی اپنے غیر معمولی صلاحیت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے تھے ۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدین کہ اکبر علی ایک ایسی ڈفلی جس کے کناروں پر گھنگروں آویزاں تھے ، کو ناچ ناچ میں ٹخنو سے لے کر سر تک آہستہ آہستہ ہر اندام پر مارتے تھے ۔ جس کے ساتھ ڈفلی کا سُر سازینو کے تال میں سما جاتا اور لے کی بندوشو سے موسیقی مزید دلکش ہوجاتی تھی ۔ جب سازینے راگ شروع کرتے تو وہ ڈفلی کے ساتھ پیروں کے گھنگروں ایک ساتھ لہراتے تھے ۔ جس سے سُر میں تان آجاتا ۔ دفعتاً وہ پے درپے چھلانگیں لگا کر زور زور سے ڈفلی بنانا شروع کرتے ۔ جب ڈفلی کے ساتھ موج در موج بدن لہرانا شروع کرتے تو موسیقی کا ردھم بھی کم ہوجاتا ۔ پھر یک دم دف بجا کر موسیقی کے آلات تیز ہوجاتے اور وہ زور زور سے زمین پر پیر مار کر ناچ کی انتہا کرتے ۔ غرض یہ کہ ناگن ساز میں تو ان کے ناچ کا جواب نہیں تھا ۔ 

   زنانہ فن کاروں میں بعض اپنے رقص اور حسن کے حوالے سے زیادہ شہرت کے حامل تھیں ۔ بعض اپنی چنچل اداوں سے وار کرتے ، تو بعض اپنی اداکاری سے ۔ اس لئے لوگ ان پر دیوانہ وار فریضتہ ہوکر انہیں شادی کے بندھن میں باندھے کو چاہتے تھے ۔ 

  قارئین ! زمانہ بدلا گیا ، رسم و رواج بدلے اور ناچ گانے کی روایت بھی کمزور ہوئی ۔ جو کچھ باقی تھا اسے خراب حالات نے مزید ابتر کیا ۔ جب بہت ساری تباہی کے ساتھ ناچ گانے بھی ابتری سے دوچار ہوئے تو آلات موسیقی نذر آتش کر دئے گئے ، آدم خان کا رباب توڑ دیا گیا ، پشتون ثقافت کا عالمبردار مٹکا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ فن کاروں کے گلے کاٹ دیے گئے ۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا ، نا ہی کسی نے ان کی ستم ظریفی پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ۔ 

  ایسے میں شاباش کا مستحق ہیں ژوب کوئٹہ کے نقیب لون جو پچھلے سال ایم فل کے مقالے کےلئے " شورش میں فن کاروں کے حالت زار " کا موضوع لے کر سوات آئے تھے ۔ تین دن میں مجھ سمیت کئی افراد کا انٹرویو کیا ۔ جن میں وہ فن کار بھی شامل تھے جو کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے تھے ۔ بدقسمتی سے پشاور یونیورسٹی نے بوجوہ ان کو سوات تک محدود ہونے کا مشورہ دیا ۔ پھر بھی نقیب کی ہمت اور ارادے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اپنی محنت کو کتاب کی شکل میں شائع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی مقصد میں کامیابی عطا فرمائے ، آمین ۔
  یہ کتاب یقیناً یونیورسٹی کے باقاعدہ ریسرچ کے اعزاز سے محروم ہوگئی لیکن تاریخ میں اپنی جگہ بناکر سچائی کا اظہار ضرور کرے گی ۔ موجودہ تبدیلی سرکار نے محکمہ ثقافت کی اہمیت بڑھانے کی بجائے اتنا غیر موثر کردیا ہے کہ اب یہ محکمہ ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ میں ضم ہوچکا ہے ۔ گویا اب ہم نازیہ اقبال اور گل پانڑہ کی جگہ میڈونا اور شکیرا کا انتظار کرتے رہے گے ۔ 

خدارا ! پشتون ثقافت کو ڈوبنے سے بچائیں ۔ آخر میں غزالہ جاوید اور ایمن اداس کے نام ان کے اپنے نغمے کرتا چلوں :
سہ نرے نرےباران دے اور جدا رانہ جاناں دے 
انتظار دے دہ گلونوں دہ زڑہ کور مے پسی وران دے 

       پہ سپینو سپینو لیچو شنہ بنگڑی بہ شڑنگومہ 

                            
                                              تحریر : ساجد ابو تلتان

12 ستمبر ، ممتاز شیریں کا یومِ پیدائش



  12ﺳﺘﻤﺒﺮ 1924ﺀ ﮐﻮ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﻧﻘﺎﺩ ، ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻧﮕﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﺮﺟﻢ ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﮨﻨﺪﻭ ﭘﻮﺭ ‏، ﺍٓﻧﺪﮬﺮﺍﭘﺮﺩﯾﺶ ‏ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ قیام پاکستان کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کرکے کراچی پہنچا ۔ 

کراچی آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے نیا دور کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہو گیا ، لیکن 1952ء میں ممتاز شیریں اپنے شوہر صمد کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی ۔ 

ادبی مجلہ نیا دور ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور انگریزی ادبیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے ایم اے  انگریزی کرنے کے بعد ممتاز شیریں برطانیہ چلی گئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیا ۔

ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﮐﮯ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﯼ ﻣﺠﻤﻮﻋﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﮕﺮﯾﺎ، ﺣﺪﯾﺚ ﺩﯾﮕﺮﺍﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮕﮫ ﻣﻠﮩﺎﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻨﻘﯿﺪﯼ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﭩﻮ ﻧﮧ ﻧﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﻧﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﻮﺋﮯ ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ 1947 ﺀ ﮐﮯ ﻓﺴﺎﺩﺍﺕ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮦ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﻇﻠﻤﺖ ﻧﯿﻢ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻥ ﺍﺳﭩﯿﻦ ﺑﮏ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺩﯼ ﭘﺮﻝ ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺩﺭﺷﮩﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ اس کے علاوہ امریکی نمائندہ افسانوں کا مجموعہ پاپ کی زندگی کے نام سے شائع کیا۔ ﻭﮦ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺍﺩﺑﯽ ﺟﺮﯾﺪﮦ ﻧﯿﺎ ﺩﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﺋﻊ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔

ﻣﺤﺘﺮﻣﮧ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﻧﮯ 11 ﻣﺎﺭﭺ 1973ﺀ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦٔ ﺧﺎﮎ ﮨﻮﺋﯿﮟ ۔ 

12 ستمبر ، رئیس امروہوی کا یومِ پیدائش



  سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی برصغیر کے بلند پایہ شاعر ، ممتاز صحافی اور اردو کے مایہ ناز شاعر تھے ۔
 
 آپ 12 ستمبر 1914ء کو یوپی کے شہر امروہہ کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔

  ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے ۔ آپ سید محمد تقی اور جون ایلیا کے بڑے بھائی تھے ۔

 رئیس امروہوی 1936ء میں صحافت سے وابستہ ہوئے ، انہوں نے قیام پاکستان سے قبل امروہہ کے اخبارات قرطاس اور مخبر عالم کی ادارت کی ۔ بعد ازاں روزنامہ جدت (مرادآباد) کے مدیر اعلیٰ رہے ۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے ، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی ۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف ، پس غبار ، حکایت نے ، لالہ صحرا ، ملبوس بہار ، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں ۔ جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات  کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے ۔

 22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔ رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔

ہفتہ، 7 ستمبر، 2019

سات ستمبر ، نامور ادیب اشفاق احمد کا یومِ انتقال


   پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار ، ڈرامہ نویس ، ناول نگار ، مترجم اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد خان ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست ، 1925ء کو بروز پیر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم فیروز پورہ میں حاصل کی ۔ 
   اعلیٰ تعلیم کےلئے گورنمنٹ کالج لاہور شفٹ ہوئے ، اور وہاں سے اردو زبان و ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور فرانس کے نوبلے یونیورسٹی سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے حاصل کیے ۔ اس کے علاوہ نیو یارک  یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی ۔ 
  اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے ۔ اشفاق احمد نے اردو زبان میں افسانے ، متراجم ، ناولٹ ، سفر نامے ، ڈرامے ، شاعری اور طنز و مزاح میں بے شمار کتب لکھے ہیں ۔  ان کی بے مثال کارکردگی کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ امتیاز سے نوازا ۔
   یہ عظیم شخصیت اور اردو ادب کا درخشاں ستارہ ،07 ستمبر ، 2004ء کو جگر کی رسولی کی وجہ سے اچانک انتقال کرگئیں ۔ 

جمعہ، 6 ستمبر، 2019

تعلیمی نظام کی زبوں حالی ، ذمہ دار کون ؟



    انسانی تاریخ میں ابتدا ہی سے تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی اشاعت میں اختلاف رہا ۔

    انسانی تاریخ پر اگر سنجیدگی سے نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسی علم نے کتنی بڑی ہستیوں کو جنم دیا ہے ۔ یونان کی گلیوں میں گھومنے والے سقراط نے جب اس کا بیڑا اٹھایا تو افلاطون ، ارسطو اور دیگر اہم شخصیات پیدا ہوئیں ، جنہوں نے سیاست سے لے کر فلکیات کی دنیا تک انقلاب برپا کر دیا ۔ 

   اسی علم نے جب مذہبی رُخ اختیار کیا ، تو عرب کی سرزمیں پر ایسی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں ، جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی ، جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا حیران ہوکر رہ گئی۔ لیکن آج کے دور میں اگر تعلیم پر گفتگو کرنے کےلئے کوئی دانشور میدان میں آتا ہے تو ان کو ماضی کی علمی صورتحال کی تاریخ اور موجودہ تعلیمی نظام کی کمیوں پر نوحہ کناں ہونا پڑتا ہے ۔ 

    قارئین ! وہ علم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں ، بالکل کافی نہیں ۔ کیوں کہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہا ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت دے پا رہا ہے ۔ ہم تعلیم حاصل کر کے بھی اسی پرانی بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہئے تھا ۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اُسی ساس بہو کے فرسودہ نظریے کے ساتھ چلتی ہیں ۔ 

  ہمارے نوجوانوں کو آپ دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دیں ، وہ وہی گالی بھری زبان لیے پھرتے ہوں گے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہوں گے ۔ کیوں کہ ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔ ہم جس طرح تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ، اسی طرح واپس نکل آتے ہیں ۔ 

    قارئین ! موجودہ تعلیمی نظام اپنے وجود میں ہولناک قسم کی خامیاں رکھتا ہے ، جس کے پیشِ نظر تحریر میں چند ایک کا ذکر موجود ہے ۔

    یہ تعلیمی نظام اہلیت و قابلیت کی بجائے مارکس ، جی پی اے ، اسائنمنٹ اور امتحانی ہال کے ارد گرد گھومتا ہے ۔ اس نظام تعلیم میں تمام شاگردوں کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا جاتا ہے ۔ یعنی ان کی مختلف صلاحیتوں کو دیکھنے کا کوئی دستور ہی نہیں ۔ اس نظام نے اخلاقی تربیت کو یکسر نظرانداز کردیا ہے ۔ اس نظام تعلیم میں پیشہ ورانہ تعلیم کو انتہائی کم اہمیت دی گئی ہے ۔ اس تعلیمی نظام کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ پورا سسٹم ”کمرشلزم“ کے اصول پر استوار ہے۔

    اس کے علاوہ بھی اس تعلیمی نظام میں ڈھیر ساری کمزوریاں ہیں جو کہ بیان کی جا سکتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ یہ تعلیمی نظام مجموعی طور پر انسانی ترقی کا باعث نہیں بن رہا خواہ وہ ترقی دنیاوی ہو یا دینی ۔

  بالخصوص وطنِ عزیز کی تعلیمی صورتحال انتہائی ابتر ہے ۔ وطنِ عزیز میں موجود تعلیمی نظام ” ڈبل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن “ کے اصول پر نہیں ، بلکہ ” سیورل اسٹینڈرڈ آف ایجوکیشن “ پر استوار ہے ۔ ایک سکول کا تعلیمی نظام دوسرے سکول سے ہر لحاظ سے مختلف نہیں بلکہ متضاد ہیں ۔ فیس اسٹرکچر سے لے کر اساتذہ کی تنخواہ تک ، انتظامی صورتحال سے لے کر اکیڈمک معاملات تک ہر چیز اپنے وجود میں اختلاف رکھتی ہے ۔ اس تمام صورتحال میں تعلیم جو کہ ہماری بنیادی ضرورت اور ملک میں موجود تمام مسائل کا حتمی حل ہے ، انتہائی ذبوں حالی کا شکار ہے ۔

      اگر ہمیں ہماری قوم کو دنیا کی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کرنا ہے تو ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں سرِ فہرست رکھنا ہوگا ۔ ہمیں اپنی نصابِ تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔ اپنی سلیبس کو جدید دور کے مطابق معیاری بنانا ہوگا ۔ کیوں کہ ہماری ضرورت " ڈگری ہولڈر " نہیں بلکہ ایک مہذب قوم ہے ۔ 

                                              تحریر : اختر حسین ابدالؔی 

بدھ، 4 ستمبر، 2019

شادی میں ڈولی کا رواج



  اپنے ایک دوست شاعر نجیب زیرؔے کی شادی سے متعلق سن کر حیرت زدہ ہوا ۔ عجیب آدمی ہے ، اپنی شادی کی بارات میں ڈولی کا مطالبہ کر بیٹھا ۔ یہ درست ہے کہ شرائطِ نکاح میں دونوں طرف سے مطالبے کئے جاتے ہیں ۔ جن میں سے اکثر مانے جاتے ہیں ۔ لہذا نجیب کے معاملے میں طرفین کے درمیان ڈولی کا سمجھوتہ طے پاگیا ۔ کیوں نہ طے پاتا ، شادی میں مرضی جو ان کی اپنی تھی ۔ سمجھا ہوگا ، یہ شادی ہے ، کچھ گڈے گڈی کا کھیل تھوڑی ہی ہے ۔ بارات میں دلہن کےلئے ڈولی مخصوص کی گئی تھی ۔ لیکن میری ہنسی نہ روکی ۔ کیوں کہ لوگ تو ڈولی کی جگہ 2D میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں ۔ شادی ہال بک کراتے ہیں اور کارڈ پر خاص مہمان بلاتے ہیں جو کھانا کھا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ بقول وکیل حکیم زے " ایسی شادیاں بھی ہوتی ہیں جس میں پڑوسیوں کو خبر نہیں ہوتی ۔ بس دلہا دلہن کی شادی خانہ آبادی ہوجاتی ہے ۔ یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے ۔ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورا علاقہ میت کےلئے خبردار کیا جاتا ہے جبکہ شادی سے پڑوسی بے خبر رہتے ہیں "۔ 

 نجیب ! بڑے بوڑھے محض ڈولی کا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ بے شمار رسم و رواج شادی سے منسلک تھے ۔ جیسے کوئدن ، نیوکہ ، خوڑہ ، خونے ، اختر ، شوقدر ، گل ، پریکون ، تویانہ ، جنج ، حلب ، لوگے ، ڈوڈئی ، ڈزی ، پیسے نوستل ، ڈمامہ ، نکاح ، دینی ورور  ، اوومہ ، سپختہ ، خپارتون اور سراور وغیرہ ( یہ نام پشتو کے ہیں ) ۔ البتہ جہیز بعد میں متعارف ہوا ۔ کیا ڈولی واپس لانے سے یہ سب کام ہوسکتے ہیں ؟

قارئین ! لڑکا جب جوان ہوتا تو سب کی نظر میں آجاتا ماں ،  باپ اور رشتہ داروں کو شادی کی فکر لاحق ہوتی تھی ۔ کیوں کہ وہ ہر وقت جو غصہ کرتا تھا جس کو لوگ شادی کے مطالبے سے تعبیر کرتے تھے ۔ جیسے اس ٹپے سے واضح ہے ۔
ہلک مے نن مخی لہ راغلے ۔ 
د چندنڑ لختہ تا وہی غواڑہ کوئدنہ 

ایسے نوجوان کی ماں اور بہن لڑکے کی شادی کا بے تابی سے انتظار کرتیں ۔ وہ شادی کے ارمان کرکے مسرور رہتیں ۔ کھبی خوشی میں آکر کہتے ۔ 
خدایہ پہ کور کہ خادی راکڑے 
چہ غولے تنگ وی پہ کوٹہ گڈا کوومہ 

اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے وہ لڑکی پسند کرتے ۔ اکثر لڑکی کی قمیص کا ٹکڑا کاٹ دیا جاتا تھا ۔ لڑکی پسند آتی تو اس کےلئے صندوق میں " جوڑا" اور خوراک کا سامان لے کر جاتے ۔ اس عمل کو خوڑہ  
کہا جاتا تھا ۔ جس میں " گل " رکھنے کا عمل بھی ہوجاتا تھا۔ پھر دونوں طرف سے دعوت ہوتی جسے " خونے " کہتے ہیں ۔ شادی سے پہلے لڑکی کی گھر " اختر او شوقدر  " میں کچھ چیزیں بھیجے جاتے تھے ۔ شادی کی تاریخ طے کی جاتی جسے " پریکون " کہا جاتا تھا ۔ اس میں باراتیوں کی کھانے کا انتظام ، مہر اور تویانہ وغیرہ طے کیا جاتا تھا ۔ لڑکی والے چند ضروری چیزوں کا اہتمام کرتے تھے ۔ باقی سارا خرچہ لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا تھا ۔ پریکون کے بعد لڑکے والے نائی کے گھر سے ڈمامہ لے آتے تھے ۔ ہر شام اڑوس پڑوس اور رشتہ دار خواتین جمع ہوجاتے تھے ۔ وہ برتن اور ڈمامہ بجاتیں اور خوشی کے شادیانے گاتی ہوئی کہتے ۔ 
دغہ خادی دی مبارک شہ 
دی ستا خادئی لہ پہ خوشئی راغلی یمہ 

وہ اپنے نغموں سے گھر والوں کو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کرتی تھیں ۔ جبکہ گھر والے دشمنوں کو پریشان کرنے اور ان کی زخموں پر نمک پاشی کےلئے جوش میں آکر لڑکیوں سے کہتے تھے ۔ 
ڈمامے پاس پہ بلئی کیگدئی 
چہ انگازی ئی دشمن کرہ ورزینہ 

پھر مہندی والی رات آتی اور سہیلیاں جمع ہو کر یہ گیت گاتیں ۔ 
شپہ دہ د نکریزو خینکئی تمبل وہینہ 
خلک د ہر خوا نہ پہ وادہ راغلی دینہ 

پھر شادی کا دن آتا ، کھانا کھلایا جاتا ، بارات آجاتی ۔ ڈولی پر میوے اور پیسے پھینکے جاتے تھے ۔ دلہن پالنگ پر بٹھائی جاتی ، اس کے گود میں بچہ رکھا جاتا تھا ۔ مہمان دلہن کو پیسے دیتے ۔ ہوائی فائرنگ اور رات کو تماشے ہوتے تھے ۔ اس کے بعد نکاح کا مرحلہ رہ جاتا تھا ۔ جس میں کسی شخص کو دلہن کا دینی بھائی بنایا جاتا تھا جو دلہن کے سر کا اختیار لیتا ۔ یوں دلہن " اوومہ " پر میکے چلی جاتی تھی ۔ شادی کی تمام رسومات ختم ہوجاتے تھے ۔ 

جس میں گھڑی گھڑی جھگڑوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا ۔ خاص کر بارات کے موقع پر تو بہت زیادہ امکان موجود تھا ۔ علاوہ ازیں " پریکون " ، " نائی کا حلب " اور کھانا کھانے کے دوران جھگڑے ہوسکتے تھے ۔ 

نجیب صاحب ! کیا آپ کی شادی میں کچھ ایسا ہوا ہے ؟ 
یقینا نہیں ہوا ہوگا ۔ 

قارئین ! ڈولی موٹے ڈنڈوں کے سہارے لٹکی ہوئی ایک کھٹولی تھی ۔ جس میں راجہ مہا راجہ اور نوابوں کی بیگمات بیٹھ جاتی تھی ۔ دو تین کہار یا کہارن اسے اٹھاتی تھی ۔ شہزادیاں بھی سیر کرنے کےلئے اس میں بیٹھ جاتے تھے  ۔ یہ پردے دار زنانہ سواری تھی جسے ہم لوگوں نے شادی میں متعارف کروایا تھا ۔ اب پردے دار زنانہ گاڑیوں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ اس لئے شادی میں ڈولی کی جگہ گاڑی نے لی ہے ۔ جس کو سجا کر ڈولی ہی بنا لی جاتی ہے ۔ اگر ڈولی کا رواج واپس آبھی جائے تو ڈولی اٹھانے والے کہاں سے آئیں گے ۔ نہ تو کسی کے پاس وقت ہے اور نہ طاقت ۔ حقیقت میں یہ وقت کا پہیہ ہے جو گھومتا ہے تو بہت ساری مادی چیزوں کا استعمال بھی ختم کرتا ہے ۔ آئے روز نئی چیزیں متعارف ہوتی ہے ، ثقافت کا حصہ بنتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہیں ۔ کیوں کہ ثقافت خود جامع چیز نہیں ہے ۔ اس لئے پرانے رسم و رواج یاد کرنے یا لکھنے کےلئے ہیں آزمائش کےلئے نہیں ۔ 
آخر میں موضوع سے متعلق کچھ ٹپے ملاحظہ ہو ۔ 
ڈولئی تہ خیجم پہ جڑا یم 
نہ مے ادئی شتہ نہ مے دادا خوا لہ رازینہ 

صبا بہ ستا ایمان معلوم شی 
شمس ڈولئی بہ ستا د کور پہ خوا کے زینہ 

صبا بہ سختی ننداری وی 
ڈولئی بہ سرہ وی ہلکان بہ پسی زینہ

                                                راقم : ساجد ابو تلتان 

منگل، 3 ستمبر، 2019

الٹی گنگا بہانا ( کہاوت کا پس منظر )



اس کہاوت کا مطلب ہے عقل کے خلاف بات کہنا یا رواج کے خلاف کرنا۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جو بالکل الٹی اور کم عقلی کی بات ہو یا ناممکن ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔

اس کہاوت کی کہانی یہ ہے کہ ایک عورت بہت ضدی تھی۔ اس کا شوہر اس سے جو کہتا وہ اس کے برعکس کام کرتی۔ ایک روز شوہر نے تنگ آ کر کہا، "تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔"
وہ بولی، "ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
شوہر نے کہا، "اچھا مت جاؤ۔"
کہنے لگی، "ضرور جاؤں گی۔"
شوہر بولا، "کل جانا۔"
بولی، "ابھی اور اسی وقت چلی جاؤں گی۔"
شوہر نے کہا، "خود ہی جاؤ اکیلی۔"
کہنے لگی، "تم چھوڑنے چلو گے، اکیلی تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔"
مجبوراً شوہر اس کے ساتھ ہوگیا۔ دونوں چلے۔ راستے میں دریائے گنگا پڑتا تھا۔

شوہر نے کہا، "تم ٹھہرو میں کشتی لاتا ہوں۔"
عورت بولی، "کشتی نہیں چاہئے۔ میں تیر کر جاؤں گی۔"
شوہر نے اسے بہت سمجھایا کہ پانی گہرا ہے اور بہاؤ بھی تیز ہے، مگر اس ضدی عورت نے ایک نہ مانی اور پانی میں کود پڑی۔ ظاہر ہے ڈوبنا تو تھا ہی۔ پانی میں غوطے کھانے لگی اور پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی جانے لگی۔ شوہر نے یہ دیکھا تو اسے بچانے کے لیے دوڑا، مگر بہاؤ کے ساتھ دوڑنے کے بجائے بہاؤ کی مخالف سمت کنارے کنارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "وہ پانی کے ساتھ بہہ کر نیچے کی طرف گئی ہوگی، تم بہاؤ کے الٹ اوپر کیوں اسے پکڑنے جا رہے ہو؟"
اس پر اس نے جواب دیا، "تم اسے نہیں جانتے۔ وہ بہت ضدی ہے۔ یہاں بھی الٹی گنگا بہائے گی۔"

پیر، 2 ستمبر، 2019

یک نہ شد دو شد​ ( کہاوت کا پس منظر )



اس کہاوت کے لفظی معنی تو یہ ہیں ،” ایک نہ ہوا دو ہوئے “ اور یہ اس وقت بولی جاتی ہے جب ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مصیبت بھی سر پر آ پڑے ۔

اس کہاوت کی کہانی یوں ہے کہ ایک شخص منتر پڑھ کر مردوں کو زندہ کرنے اور دوسرا منتر پڑھ کر انہیں دوبارہ مارنے کا جادو جانتا تھا ۔

 وہ مردوں کو زندہ کر کے ان سے باتیں کرتا اور پھر انہیں دوبارہ جادو کے زور سے قبر میں داخل کر دیتا ۔ وہ شخص جب مرنے لگا تو اس نے اپنے ایک شاگرد کو یہ جادو سکھا دیا ۔ 

اس کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شاگرد نے ایک قبر پر جا کر یہ منتر پڑھا اور مردے سے باتیں کیں ، لیکن مردے کو دوبارہ قبر میں داخل کرنے کا منتر بھول گیا ۔ شاگرد بہت گھبرایا اور جب گھبرا کر بھاگنے لگا تو وہ مردہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آیا ۔ اب وہ جہاں بھی جاتا مردہ اس کے پیچھے آتا ۔ بہت کوشش پر بھی جب اسے منتر یاد نہ آیا تو اسے ایک ترکیب سوجھی ۔ 

وہ استاد کی قبر پر پہنچا اور مردے کو زندہ کرنے کا منتر پڑھا اور استاد کے قبر سے نکلنے پر اس سے دوسرا منتر پوچھنے لگا ، لیکن استاد صاحب ایسی دنیا میں پہنچ چکے تھے جہاں انہیں کوئی پچھلی بات یاد نہ تھی اور اب استاد کا مردہ بھی پہلے مردے کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے ہو گیا ۔ نتیجہ یہ کہ شاگرد وہاں سے یہ کہہ کر بھاگا کہ ، ”یک نہ شد دو شد“۔