بدھ، 4 ستمبر، 2019

شادی میں ڈولی کا رواج



  اپنے ایک دوست شاعر نجیب زیرؔے کی شادی سے متعلق سن کر حیرت زدہ ہوا ۔ عجیب آدمی ہے ، اپنی شادی کی بارات میں ڈولی کا مطالبہ کر بیٹھا ۔ یہ درست ہے کہ شرائطِ نکاح میں دونوں طرف سے مطالبے کئے جاتے ہیں ۔ جن میں سے اکثر مانے جاتے ہیں ۔ لہذا نجیب کے معاملے میں طرفین کے درمیان ڈولی کا سمجھوتہ طے پاگیا ۔ کیوں نہ طے پاتا ، شادی میں مرضی جو ان کی اپنی تھی ۔ سمجھا ہوگا ، یہ شادی ہے ، کچھ گڈے گڈی کا کھیل تھوڑی ہی ہے ۔ بارات میں دلہن کےلئے ڈولی مخصوص کی گئی تھی ۔ لیکن میری ہنسی نہ روکی ۔ کیوں کہ لوگ تو ڈولی کی جگہ 2D میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں ۔ شادی ہال بک کراتے ہیں اور کارڈ پر خاص مہمان بلاتے ہیں جو کھانا کھا کر رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ بقول وکیل حکیم زے " ایسی شادیاں بھی ہوتی ہیں جس میں پڑوسیوں کو خبر نہیں ہوتی ۔ بس دلہا دلہن کی شادی خانہ آبادی ہوجاتی ہے ۔ یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے ۔ لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پورا علاقہ میت کےلئے خبردار کیا جاتا ہے جبکہ شادی سے پڑوسی بے خبر رہتے ہیں "۔ 

 نجیب ! بڑے بوڑھے محض ڈولی کا اہتمام نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ بے شمار رسم و رواج شادی سے منسلک تھے ۔ جیسے کوئدن ، نیوکہ ، خوڑہ ، خونے ، اختر ، شوقدر ، گل ، پریکون ، تویانہ ، جنج ، حلب ، لوگے ، ڈوڈئی ، ڈزی ، پیسے نوستل ، ڈمامہ ، نکاح ، دینی ورور  ، اوومہ ، سپختہ ، خپارتون اور سراور وغیرہ ( یہ نام پشتو کے ہیں ) ۔ البتہ جہیز بعد میں متعارف ہوا ۔ کیا ڈولی واپس لانے سے یہ سب کام ہوسکتے ہیں ؟

قارئین ! لڑکا جب جوان ہوتا تو سب کی نظر میں آجاتا ماں ،  باپ اور رشتہ داروں کو شادی کی فکر لاحق ہوتی تھی ۔ کیوں کہ وہ ہر وقت جو غصہ کرتا تھا جس کو لوگ شادی کے مطالبے سے تعبیر کرتے تھے ۔ جیسے اس ٹپے سے واضح ہے ۔
ہلک مے نن مخی لہ راغلے ۔ 
د چندنڑ لختہ تا وہی غواڑہ کوئدنہ 

ایسے نوجوان کی ماں اور بہن لڑکے کی شادی کا بے تابی سے انتظار کرتیں ۔ وہ شادی کے ارمان کرکے مسرور رہتیں ۔ کھبی خوشی میں آکر کہتے ۔ 
خدایہ پہ کور کہ خادی راکڑے 
چہ غولے تنگ وی پہ کوٹہ گڈا کوومہ 

اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے وہ لڑکی پسند کرتے ۔ اکثر لڑکی کی قمیص کا ٹکڑا کاٹ دیا جاتا تھا ۔ لڑکی پسند آتی تو اس کےلئے صندوق میں " جوڑا" اور خوراک کا سامان لے کر جاتے ۔ اس عمل کو خوڑہ  
کہا جاتا تھا ۔ جس میں " گل " رکھنے کا عمل بھی ہوجاتا تھا۔ پھر دونوں طرف سے دعوت ہوتی جسے " خونے " کہتے ہیں ۔ شادی سے پہلے لڑکی کی گھر " اختر او شوقدر  " میں کچھ چیزیں بھیجے جاتے تھے ۔ شادی کی تاریخ طے کی جاتی جسے " پریکون " کہا جاتا تھا ۔ اس میں باراتیوں کی کھانے کا انتظام ، مہر اور تویانہ وغیرہ طے کیا جاتا تھا ۔ لڑکی والے چند ضروری چیزوں کا اہتمام کرتے تھے ۔ باقی سارا خرچہ لڑکے والوں کی طرف سے ہوتا تھا ۔ پریکون کے بعد لڑکے والے نائی کے گھر سے ڈمامہ لے آتے تھے ۔ ہر شام اڑوس پڑوس اور رشتہ دار خواتین جمع ہوجاتے تھے ۔ وہ برتن اور ڈمامہ بجاتیں اور خوشی کے شادیانے گاتی ہوئی کہتے ۔ 
دغہ خادی دی مبارک شہ 
دی ستا خادئی لہ پہ خوشئی راغلی یمہ 

وہ اپنے نغموں سے گھر والوں کو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کرتی تھیں ۔ جبکہ گھر والے دشمنوں کو پریشان کرنے اور ان کی زخموں پر نمک پاشی کےلئے جوش میں آکر لڑکیوں سے کہتے تھے ۔ 
ڈمامے پاس پہ بلئی کیگدئی 
چہ انگازی ئی دشمن کرہ ورزینہ 

پھر مہندی والی رات آتی اور سہیلیاں جمع ہو کر یہ گیت گاتیں ۔ 
شپہ دہ د نکریزو خینکئی تمبل وہینہ 
خلک د ہر خوا نہ پہ وادہ راغلی دینہ 

پھر شادی کا دن آتا ، کھانا کھلایا جاتا ، بارات آجاتی ۔ ڈولی پر میوے اور پیسے پھینکے جاتے تھے ۔ دلہن پالنگ پر بٹھائی جاتی ، اس کے گود میں بچہ رکھا جاتا تھا ۔ مہمان دلہن کو پیسے دیتے ۔ ہوائی فائرنگ اور رات کو تماشے ہوتے تھے ۔ اس کے بعد نکاح کا مرحلہ رہ جاتا تھا ۔ جس میں کسی شخص کو دلہن کا دینی بھائی بنایا جاتا تھا جو دلہن کے سر کا اختیار لیتا ۔ یوں دلہن " اوومہ " پر میکے چلی جاتی تھی ۔ شادی کی تمام رسومات ختم ہوجاتے تھے ۔ 

جس میں گھڑی گھڑی جھگڑوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا ۔ خاص کر بارات کے موقع پر تو بہت زیادہ امکان موجود تھا ۔ علاوہ ازیں " پریکون " ، " نائی کا حلب " اور کھانا کھانے کے دوران جھگڑے ہوسکتے تھے ۔ 

نجیب صاحب ! کیا آپ کی شادی میں کچھ ایسا ہوا ہے ؟ 
یقینا نہیں ہوا ہوگا ۔ 

قارئین ! ڈولی موٹے ڈنڈوں کے سہارے لٹکی ہوئی ایک کھٹولی تھی ۔ جس میں راجہ مہا راجہ اور نوابوں کی بیگمات بیٹھ جاتی تھی ۔ دو تین کہار یا کہارن اسے اٹھاتی تھی ۔ شہزادیاں بھی سیر کرنے کےلئے اس میں بیٹھ جاتے تھے  ۔ یہ پردے دار زنانہ سواری تھی جسے ہم لوگوں نے شادی میں متعارف کروایا تھا ۔ اب پردے دار زنانہ گاڑیوں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ اس لئے شادی میں ڈولی کی جگہ گاڑی نے لی ہے ۔ جس کو سجا کر ڈولی ہی بنا لی جاتی ہے ۔ اگر ڈولی کا رواج واپس آبھی جائے تو ڈولی اٹھانے والے کہاں سے آئیں گے ۔ نہ تو کسی کے پاس وقت ہے اور نہ طاقت ۔ حقیقت میں یہ وقت کا پہیہ ہے جو گھومتا ہے تو بہت ساری مادی چیزوں کا استعمال بھی ختم کرتا ہے ۔ آئے روز نئی چیزیں متعارف ہوتی ہے ، ثقافت کا حصہ بنتی ہے اور پھر ختم ہوجاتی ہیں ۔ کیوں کہ ثقافت خود جامع چیز نہیں ہے ۔ اس لئے پرانے رسم و رواج یاد کرنے یا لکھنے کےلئے ہیں آزمائش کےلئے نہیں ۔ 
آخر میں موضوع سے متعلق کچھ ٹپے ملاحظہ ہو ۔ 
ڈولئی تہ خیجم پہ جڑا یم 
نہ مے ادئی شتہ نہ مے دادا خوا لہ رازینہ 

صبا بہ ستا ایمان معلوم شی 
شمس ڈولئی بہ ستا د کور پہ خوا کے زینہ 

صبا بہ سختی ننداری وی 
ڈولئی بہ سرہ وی ہلکان بہ پسی زینہ

                                                راقم : ساجد ابو تلتان 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں