عمران نیازی کے تقریر پر وہ لوگ خوش ہونگے جن لوگوں نے پہلی بار اقوام متحدہ میں کسی کا تقریر سُنا ہو ۔ ایسے تقاریر ہم بچپن ہی سے سُنتے آرہںے ہیں ، لیکن عمل صِفر ہی نظر آتا ہے ۔
ایسے تقاریر سے کچھ نہیں بنتا ، بلکہ مُقرر کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے ، جب وہ اقوام مُتحدہ میں " ایاک نعبدو و ایاک نستعین" سے شروع کرکے کشمیر اور فلسطین کے ایشوز پر جذباتی ڈرامہ بازی کے بعد "لا الہ اللہ" پر تقریر کا اہتمام کرتا ہے تو اُسی دوران ہی ریاست مدینہ کے خلیفہ اول عمران نیازی کے اپنے آزاد و خودمختار اور جمہوری ریاست میں ڈاکٹروں کے ایک پُرامن احتجاج پر لاٹھیوں سے ایسا تشدد کیا جاتا ہے جیساکہ یہ پُرامن ڈاکٹرز کسی بڑے دھشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتے ہو ۔
وہ تصاویر اور ویڈیوز کشمیر و فلسطین سے زیادہ دردناک منظر پیش کرتا ہے ، یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اسی ریاست میں ریاستی باشندوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات معمول بن گئے ہیں ۔
جس وقت عمران نیازی اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی بلند و بالا دعوے کررہے ہیں ، عین اُسی دن ایک امن پسند اور نہتے پشونوں کی آواز منظور پشتین(جو اس ریاست کے آئین و قانون کے اندر اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتا ہے) کو عمران نیازی کا یہ آزاد اور جمہوری ریاست جگہ جگہ چیک پوسٹس پر روک کر آگے جانے سے منع کرتے ہیں ۔ قسم قسم کے طریقوں سے اُس کو اور اُس کے دوستوں کو اذیتیں دیتا ہے ۔
اقوام متحدہ میں دھشتگردی کے خلاف بات کرنے والے عمران نیازی کے اپنے ریاست مدینہ کے "جی ایچ کیو" میں احسان اللہ احسان ایک معزز مہمان کے طور پر دن رات گزارتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک غریب اور بے گناہ پشتون نوجوان "نقیب اُللہ محسود "بشمول چار سو کم و بیش لوگوں کا قاتل راؤ انور آزاد گھومتا پھرتا ہے ۔
عمران نیازی کے اپنے ہی ریاست میں مشال خان جیسے لوگوں کو دن دہاڑے قتل کر کے لاش کی بے حُرمتی کی جاتی ہے کیا یہ کوئی ریاست ہے یا جنگل....؟
عمران نیازی کے اسی ہی آزاد و جمہوری ریاست میں بے وجہ کرفی لگنے کی وجہ سے وزیرستان کے عوام گھروں سے نہیں نکل پاتے ۔
دوسروں کےلئے حق چھینے والے عمران نیازی کے اسی اپنے ریاست مدینہ میں ابھی بھی بکاخیل کیمپ میں لاکھوں لوگ زندہ لاشوں جیسے زندگی گزار رہںے ہیں ۔
کیا کیا یاد کریں گے ۔۔۔ ؟
لیڈر تقاریر سے نہیں عمل سے پہچان سکتا ہے ۔ عمران نیازی صاحب ! پہلے اپنے دیش کی فکر کرو ، اس ریاست کے باشندوں کو اپنا حقوق دو ، اس ریاست کے اندر اقلیتی صوبوں کے باشندوں اور خصوصاً پشتونوں کو چھین سے زندگی بسر کرنے دو اور اِن کو اپنے وسائلوں کا اختیار دو ، نہیں تو جیسا ہے ویسا ہی رہے گا ۔
"یوتھیئے " آپ کے تقاریروں سے لُطف اُٹھائی گے ، تالیاں بجائے گی ، اور باقی نہ امن آئے گا ،نہ انڈیا کا کُچھ کرسکو گے اور نا ہی کشمیر تیرا ہوگا ۔
اگر کچھ رہوگے تو بس ہینڈ سم ہی رہوں گے ، اور کشمیر کو پاکستان نہیں تو شاید پاکستان کو کشمیر بناؤ گے ۔
بقولِ شاعر ،
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے
انجامِ گلستان کیا ہوگا
تحریر : شاداد ایسپزے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں