ناچ گانا ثقافت کا اہم جُز ہے جبکہ موسیقی ایک فطری تحفہ اور روح کی خوراک ہے ۔ بقول امامِ غزالی " یہ روح کی تار چھیڑتی ہے اور اس میں عشق اُبھارتی ہے "۔
داتا گنج بخش کے مطابق یہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتی ہے ، تو نظام الدین چشتی اُسے دل کی صفائی کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
ٹھیک اسی طرح ناچ کو انسانی اعضاء کی شاعری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
رقص محض گھومنے ، جھومنے ، اُچھل کود اور چکر کھانے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک رقاص کے دل کو ہلکا کر کے اسے فرحت بخش کیفیت میں بھی لاتا ہے ۔ انسان اکثر خوشی یا ذوق و شوق میں بے خود ہوکر جھومنے کی کیفیت میں آتا ہے ۔ یہ وجد آفرینی اور سرمستی کی کیفیت عارفان حق کی ہوتی ہے جو وجد کے عالم میں سرشاری اور بے خودی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ پنجاب کے مشہور رومانی مثنوی ” ہیرا رانجا “ کے خالق حضرت پیر وارث شاہ وجد میں آتے تو رقص کیا کرتے تھے ۔
الغرض اعضاء کی موزوں جنبش جیسے رقص یا ناچ کہتے ہیں دنیا کی ہر قوم میں موجود ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ایک ملک کے مختلف حصوں میں اس کی جدا جدا اقسام ہیں ۔ جیسے ہمارے ملک میں خواتین دائرہ بنا کر ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں اور جھومر ناچ پیش کرتے ہیں ۔ سندھ میں جمالو اور خیبر پختونخواہ کا اتنڑ اپنی علیحدہ پہچان رکھتے ہیں ۔ ماسوائے یوسفزیوں کے دوسرے تمام قبائل مشترکہ رقص کے قائل ہیں ۔ وہ رقص کو ثقافت کا اہم جُز سمجھ کر اس کا پابندی سے اہتمام ہی نہیں کرتے بلکہ پرچار بھی کرتے ہیں ۔ لے دے کے ایک ” شاڈولہ “ ہم سے منسوب تھا ۔ لیکن ہم نے اس کو بھی رواج نہیں کیا ۔ اس لئے ہم میں انفرادی ناچ بھی پنپ نہ سکا ۔ جبھی تو یہاں رقاص اور رقاصہ باہر سے آتے تھے ۔ جنہیں پیسے دے کر نچایا جاتا تھا ۔
یوسف زئی عام طور پر ناچ خواتین کا کام سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہاں نچیاں کم اور نچنی زیادہ تھی ۔ ان میں مردوں کےلئے ناچ بے عزتی کی بات ہے ۔ شادی بیاہ گھر کی خواتین گھروں میں ناچتی تھیں ۔ حجرے کےلئے پیشہ ور فن کار (جنہیں عرف عام میں " ڈمان " کہتے ہیں) بلائے جاتے تھے ۔ ان پر بے تحاشہ دولت لٹائی جاتی تھی ۔ اس کے باوجود اکثر مجلس شاندار نہ ہوتی کیوں کہ فن کاروں کی نظر فن سے زیادہ دولت پر ہوتی تھی ۔ ایک رقاصہ ایک چکر لگا کر میدان کے بیچ میں آتی ۔ جہاں بدن ہلاکر ایک دو چھلانگیں لگاتی ۔ جبکہ دوسری رقاصہ پیسے بٹورنے کی خاطر تیزی سے گھومنا شروع کرتی ۔ سازینے بھی ان کی چال کے ماتحت تھے ۔ جو کھبی مختلف سازوں پر بجائے جانے والی دھن تیز کرتے ۔ کھبی باجا بجانے والا سازندہ یا طبلہ نواز مدھم لے میں موسیقی کا انداز بدلتے ۔ ادھر ڈھونک بجانے والا مدھم پڑجاتا گویا وہ رقاصہ کو لوگوں سے باتیں کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہوتا ۔ جس میں وہ بدن ہلاتی اور آہستہ آہستہ زمین پر پیر مار کر گھنگروں کی آواز نکالتی ۔ پھر دونوں ہاتھ پھیلا کر گھوم جاتی ۔ جس میں ناچ کم اور اداکاری زیادہ نظر آتی تھی ۔ یعنی تین گھنٹوں کی مجلس میں 20 منٹ ناچ ہوتا باقی وقت ویسے صرف کرلیتے ۔ اصلی ناچ تب ہوتی جب ان پر پیسوں کی بارش شروع ہوجاتی ۔ ایسی مجالس شادی بیاہ اور لڑکے کے ختنے میں منعقد کیے جاتے تھیں ۔
صرف نرتکی ( رقاصہ ) ناچ نہیں کیا کرتی تھی بلکہ نرتک ( رقاص ) بھی خوب ناچتا تھا ۔ یہ رقاص بھی اپنے غیر معمولی صلاحیت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے تھے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدین کہ اکبر علی ایک ایسی ڈفلی جس کے کناروں پر گھنگروں آویزاں تھے ، کو ناچ ناچ میں ٹخنو سے لے کر سر تک آہستہ آہستہ ہر اندام پر مارتے تھے ۔ جس کے ساتھ ڈفلی کا سُر سازینو کے تال میں سما جاتا اور لے کی بندوشو سے موسیقی مزید دلکش ہوجاتی تھی ۔ جب سازینے راگ شروع کرتے تو وہ ڈفلی کے ساتھ پیروں کے گھنگروں ایک ساتھ لہراتے تھے ۔ جس سے سُر میں تان آجاتا ۔ دفعتاً وہ پے درپے چھلانگیں لگا کر زور زور سے ڈفلی بنانا شروع کرتے ۔ جب ڈفلی کے ساتھ موج در موج بدن لہرانا شروع کرتے تو موسیقی کا ردھم بھی کم ہوجاتا ۔ پھر یک دم دف بجا کر موسیقی کے آلات تیز ہوجاتے اور وہ زور زور سے زمین پر پیر مار کر ناچ کی انتہا کرتے ۔ غرض یہ کہ ناگن ساز میں تو ان کے ناچ کا جواب نہیں تھا ۔
زنانہ فن کاروں میں بعض اپنے رقص اور حسن کے حوالے سے زیادہ شہرت کے حامل تھیں ۔ بعض اپنی چنچل اداوں سے وار کرتے ، تو بعض اپنی اداکاری سے ۔ اس لئے لوگ ان پر دیوانہ وار فریضتہ ہوکر انہیں شادی کے بندھن میں باندھے کو چاہتے تھے ۔
قارئین ! زمانہ بدلا گیا ، رسم و رواج بدلے اور ناچ گانے کی روایت بھی کمزور ہوئی ۔ جو کچھ باقی تھا اسے خراب حالات نے مزید ابتر کیا ۔ جب بہت ساری تباہی کے ساتھ ناچ گانے بھی ابتری سے دوچار ہوئے تو آلات موسیقی نذر آتش کر دئے گئے ، آدم خان کا رباب توڑ دیا گیا ، پشتون ثقافت کا عالمبردار مٹکا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ فن کاروں کے گلے کاٹ دیے گئے ۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا ، نا ہی کسی نے ان کی ستم ظریفی پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ۔
ایسے میں شاباش کا مستحق ہیں ژوب کوئٹہ کے نقیب لون جو پچھلے سال ایم فل کے مقالے کےلئے " شورش میں فن کاروں کے حالت زار " کا موضوع لے کر سوات آئے تھے ۔ تین دن میں مجھ سمیت کئی افراد کا انٹرویو کیا ۔ جن میں وہ فن کار بھی شامل تھے جو کسی نہ کسی طرح متاثر ہوئے تھے ۔ بدقسمتی سے پشاور یونیورسٹی نے بوجوہ ان کو سوات تک محدود ہونے کا مشورہ دیا ۔ پھر بھی نقیب کی ہمت اور ارادے کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اپنی محنت کو کتاب کی شکل میں شائع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی مقصد میں کامیابی عطا فرمائے ، آمین ۔
یہ کتاب یقیناً یونیورسٹی کے باقاعدہ ریسرچ کے اعزاز سے محروم ہوگئی لیکن تاریخ میں اپنی جگہ بناکر سچائی کا اظہار ضرور کرے گی ۔ موجودہ تبدیلی سرکار نے محکمہ ثقافت کی اہمیت بڑھانے کی بجائے اتنا غیر موثر کردیا ہے کہ اب یہ محکمہ ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ میں ضم ہوچکا ہے ۔ گویا اب ہم نازیہ اقبال اور گل پانڑہ کی جگہ میڈونا اور شکیرا کا انتظار کرتے رہے گے ۔
خدارا ! پشتون ثقافت کو ڈوبنے سے بچائیں ۔ آخر میں غزالہ جاوید اور ایمن اداس کے نام ان کے اپنے نغمے کرتا چلوں :
سہ نرے نرےباران دے اور جدا رانہ جاناں دے
انتظار دے دہ گلونوں دہ زڑہ کور مے پسی وران دے
پہ سپینو سپینو لیچو شنہ بنگڑی بہ شڑنگومہ
تحریر : ساجد ابو تلتان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں