منگل، 30 جون، 2020

بلوچستان کو کالونی نہ سمجھا جائے، آج ہو یا کل آپ کو ہمارے حقوق دینے ہوں گے، اختر مینگل قومی اسمبلی میں پھٹ پڑے



موجودہ حکومت میں بلوچستان سے 1500 کے قریب جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں۔ جو لاپتہ افراد گزشتہ ادوار میں واپس آئے تھے وہ اس حکومت میں دوبارہ لاپتہ ہوئیں۔ سردار اختر مینگل قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پھٹ پڑے

سردار اختر مینگل نے کہا کہ اس عرصے میں 418 افراد بازیاب ہوئے ہیں اور یہ وہ ہیں جنھوں نے ان سے رابطہ کیا یا ان کے ذریعے رہا ہوئے ہیں۔

بدھ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران حکومت سے حالیہ بجٹ اور بلوچستان کے مستقبل سے متعلق کئی سوال بھی کیے تھے۔

پارلیمان کے اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ "میں اپنی جماعت کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ طور پر اعلان کرتا ہوں، ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔"

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی چار نشستیں ہیں اور اس کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت کی عددی برتری میں کمی واقع ہوئی ہے۔

سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے لیکن ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی نظر آتی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیورو کریسی دوست ہو سکتا ہے، عسکریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں۔"

سردار اختر مینگل نے کہا کہ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں۔

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ "اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے اور اس کے خریدار بھی ہم ہی ہیں۔ ہم نے عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف لیں نہیں بلکہ اس کو خریدیں اور منڈیوں میں جس طرح انصاف بکتا ہے شاید ہی اس ملک کے علاوہ کہیں بکتا ہو۔"

حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، بجٹ منظوری کے دن بھی صف بھری ہوتی ہے لیکن جب بجٹ تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔"

قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو قصور وار ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہوگا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ "اگر آپ اس ورثے کے چکر میں چلتے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا"۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی، یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں"۔

اختر مینگل نے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جا رہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا، تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم کو کم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلے تمام صوبوں کو پیکیج دیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف دس ارب کا پیکیج دیا گیا ہے۔

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں جو بجٹ رکھا گیا تھا، اس سال اسے کورونا یا ٹڈی دل کھا گیا، یہ اسی طرح بلوچستان کو اپنے ساتھ چلائیں گے؟ یہی ہے بلوچستان کی اہمیت؟ یہی ہیں بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے طریقے؟

سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے۔"

جمعہ، 26 جون، 2020

سابق امیر جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن انتقال کر گئے۔


سید منور حسن کے انتقال کی  تصدیق ان کے بیٹے طلحہ منور حسن نے کرتے ہوئے کہا کہ والد کی اچانک طبیعت خراب ہوئی تو انہیں قریبی اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی۔

سید منور حسن اگست 1941 میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ آزادی پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان کو اپنے مسکن کے طور پر چنا اور کراچی منتقل ہو گئے تھے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے علاقے جیکب لائن کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ 1963 میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کرنے کے بعد پھر1966 میں جامعہ کراچی سے ہی اسلامیات میں ایم اے کیا تھا۔

سابق امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے جون 1960 میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی اور اکتوبر 1962 میں انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

سید منور حسن 1962 میں اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی کے ناظم رہے اور 1963 میں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔ 27 دسمبر 1964 کے سالانہ اجتماع میں سید منورحسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

سید منور حسن نے 1967 میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیر اور پھر امیر جماعت اسلامی کراچی کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ سید منور حسن مارچ 2009 میں جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے۔

سید منور حسن نے 1977 میں کراچی سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

بدھ، 24 جون، 2020

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کی کابینہ کا اہم اجلاس، متعدد فیصلے کیے گئے


 نیشنل پارٹی کی ضلعی کابینہ کا اجلاس کورونا ایس او پیز کے مطابق سینئر نائب صدر خواجہ محمد خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس کے ایجنڈے میں نئے کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسفزئی کے نامزدگی کی منظوری، کورونا سے وفات پانے والے پارٹی ارکان کی مغفرت کےلیے اجتماعی دعا، ملک میں جاری پٹرول بحران، مہنگائی سے پیدا ہونے والی صورت حال، پردیس میں رہائش پذیر مسافر بھائیوں کی مشکلات اور پارٹی ارکان کے واٹس ایپ گروپس کی منظوری شامل ہیں۔  

اجلاس کا اغاز تلاوت کلام سے ہوا جب کہ ضلعی جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے اجلاس کا ایجنڈا پیش کیا۔ اجلاس کے موقع پر کورونا ایس او پیز کا خاص طور خیال رکھا گیا۔ اجلاس میں سابق ضلعی کلچرسیکرٹری امان الدین کے بیرون ملک جانے سے خالی ہونے والے عہدے پر ضیاء ناصر یوسفزئی کے نامزدگی کی تجویز پیش کی گئی۔ جس پر ارکان نے مفصل بحث کی اور متفقہ طور پر اس کی منظوری دیتے ہوئے کورونا وبا کے اختتام پر ضلعی کونسل کے اجلاس میں باقاعدہ منظوری کےلیے پیش کیا جائے گا۔ 

موجودہ حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی پر بحث کرتے ہوئے ارکان نے ملک میں جاری پٹرول کے بحران اور مہنگائی پرحکومتی نااہلی پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ایک طرف جہاں پوری دنیا میں پٹرول کے استعمال کی وجہ سے اس کی قیمتوں میں ناقابل یقین حد تک کمی ہوئی جب کہ اس نااہل حکمرانوں نے عوام کو پٹرول کےلیے ترسایا ہوا ہے اور دو دن کی گرمی کے بعد لوڈشیڈنگ میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے۔ 

بیرون ملک قیام پذیرمسافروں کے مشکلات پر خصوصی بحث ہوئی اور وفاقی حکومت سے ایک قرار داد کے ذریعے پرزور مطالبہ کیا کہ اربوں روپے کی زرِ مبادلہ بھیجنے والے ان مسافر بھائیوں کی مشکلات کے خاتمے کےلیے خصوصی اقدامات کیے جائیں اور انہیں یہ احساس دلایاجائے کہ اُن کی حکومت نے اپنے شہریوں کو اکیلے نہیں چھوڑا ہے۔  

ضلعی صدر کی ہدایات کے مطابق ضلعی کابینہ، تحصیل صدور اور جنرل سیکرٹریز، یونین کونسل صدور اور جنرل سیکرٹریز اور پارٹی ذیلی تنظیموں کے سربراہوں پر مشتمل واٹس ایپ گروپس کے قیام کی بھی منظوری دی گئی تاکہ معلومات اور ہدایات کے تبادلے میں آسانی پیدا ہوا اور پارٹی عہدیداران کا آپس میں مؤثررابطہ ممکن ہوسکے۔  

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ضلعی صدر ایوب خان اشاڑی نے کابینہ کے ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ اس وبائی صورتحال کے باوجود وہ پارٹی اجلاس میں شریک ہوئے اور نئے کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسفزئی کے نامزدگی کی منظوری دینے پر کابینہ کا شکریہ ادا کیا۔ چوں کہ وبائی صورت حال میں ضلعی کونسل کا اجلاس بلانا ممکن نہیں اس لیے جیسے ہی حالات میں بہتری آئی گی، اس کی باقاعدہ منظوری ضلعی کونسل سے لی جائے گی۔ 

انہوں نے صوبائی صدر کی ہدایات کے مطابق تمام تحصیل صدور اور جنرل سیکرٹریز کو ہدایات جاری کئے کہ وہ اپنے اجلاس کی کاروائی کو بہتر انداز میں تحریری شکل میں اپنے ساتھ محفوظ کیا کرے جس کا صوبائی جنرل سیکرٹری کے سربراہی میں سہ ماہی جائزہ لیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ ضلع سوات کی سوشل میڈیا ٹیم نے وبائی صورتحال میں جس طرح کردار ادا کیا وہ انتہائی احسن قدام ہے جس کو پورے صوبے اور بیرون ملک پختون کمیونٹی میں سراہا گیا جس پر میں اپنے سوشل میڈیا ٹیم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اس سلسلے کو اس طرح کامیابی سے اگے لے جائے گا اور پارٹی میسج کو لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا کے فورم کو مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے گا۔ 

ایوب خان اشاڑی نے کابینہ ارکان کو خصوصی ہدایت کہ وہ پارٹی آئین اور پالیسی پر سختی سے کارفرما ہوں اور ایسے بیانات سے اجتناب کریں جو پارٹی پالیسی سے متصادم ہو۔  

اجلاس کے اختتام پر کورونا سے وفات پانے والے پارٹی اراکین، اُن کے رشتہ داروں اور دیگر مرحومین کی مغفرت اور ایصالِ ثواب کےلیے اجتماعی دعا بھی کی گئی۔

ضیاء ناصر یوسفزئی اے این پی ضلع سوات کے کلچر سیکرٹری نامزد


عوامی نیشنل پارٹی کی ضلعی کابینہ کا اجلاس کورونا ایس او پیز کے مطابق سینئر نائب صدر خواجہ محمد خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کابینہ کے تمام ارکان نے شرکت کی۔

اس موقع پر اے این پی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے تجویز پیش کی کہ سابقہ کلچر سیکرٹری امان الدین خان کے مستعفی ہونے کے بعد خالی ہونے والے عہدے پر ضیاء ناصر کو نامزد کیا جائے، جو پارٹی کے دیرینہ ورکر ہے اور زمانہ طالب العلمی سے باچاخان بابا کے تحریک سے منسلک ہے۔  

کابینہ کے ارکان نے متفقہ طور پر اس تجویز کو منظور کیا اور باقاعدہ طور پر اس کی منظوری دے دی۔  چونکہ وبائی صورتحال میں ضلعی کونسل کے اجلاس کا انعقاد ممکن نہیں اس لیے جیسے ہی حالات ٹھیک ہوئے تو ضلعی کونسل کے اجلاس میں اس کی باقاعدہ طور پر منظوری لی جائیگی۔  

کابینہ کے ارکان نے اس موقع پر سابقہ کلچر سیکرٹری امان الدین خان کے خدمات کو خراج تحسین پیش کیا، اور نئے آنے والے سیکرٹری ثقافت کو مبارکباد دی اور یہ اُمید ظاہر کی کہ وہ اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو پارٹی کے عظیم تر مفاد میں بروئے کار لائے گے۔

عامر تہکال پر تشدّد کرنے اور برہنہ ویڈیو بنانے والے پولیس اہلکاروں کو سرِعام سزا دی جائے، عوام کا مطالبہ


صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک عامر تہکالی نامی شہری پر تشدد اور اسے نیم برہنہ کر کے ویڈیو بنانے کے معاملے میں تین پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے پختون خواہ پولیس کو آڑےہاتھوں لے لیا۔

یہ معاملہ چند روز قبل ایک شخص کی ویڈیو سے شروع ہوا تھا جس میں اس نے پولیس اہلکاروں کے بارے میں نازیبا گفتگو کی تھی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تھانہ تہکال کی پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تھا اور پھر اس کی نیم برہنہ ویڈیو سامنے آئی۔

یہ ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر پشاور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور بدھ کو پولیس حکام نے کارروائی کرتے ہوئے پولیس انسپکٹر اور اہلکاروں کو معطل کر کے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور ظہور بابر آفریدی نے تھانہ تہکال کے ایس ایچ او کے علاوہ مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث ایک اے ایس آئی اور دو کانسٹیبلوں کو بھی معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اے ایس آئی اور دونوں کانسٹیبلز کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ لیکن ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی لوگوں نے جا بجا احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ پولیس اہلکاروں کو سرعام سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات نہ کریں۔ 

انسانیت سوز واقعے پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کا ٹویٹ

اس وقت سوشل میڈیا پر ”جسٹس فار عامر تہکال“ ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہے۔

وائرل ویڈیو کا معاملہ کیا ہے؟
چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند لڑکے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں ایک اپنا تعارف پشتو زبان میں یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ ’میں تہکال کا عامر ہوں‘۔
تہکال پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر ایک علاقہ ہے جہاں بیشتر آبادی ارباب خاندان کی ہے ۔
اس ویڈیو میں مذکورہ لڑکا پولیس افسران کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پولیس اس کا کیا کر سکتی ہے۔ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے ایس ایچ او کی زیر نگرانی کارروائی کرتے ہوئے اس شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد ان کی ایک تصویر اور مختصر ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کے چہرے پر تشدد کے نشان دیکھے جا سکتے تھے اور ویڈیو میں وہ معافی مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔

یہ ویڈیو اور تصویر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی جس میں کچھ لوگ عامر کے رویے پر سخت تنقید کرتے رہے لیکن بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ عامر نے جو حرکت کی اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی اور پولیس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو تھانے لے جا کر اس پر تشدد کرے اور خود ہی اسے سزا دے۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید اور کچھ بحث کے بعد ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کو نیم برہنہ دیکھا جا سکتا ہے اور اہلکار اس پر آوازیں کستے سنے جا سکتے ہیں۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس حکام متحرک ہوئے اور اس بارے میں پہلے انسپکٹر جنرل پولیس اور اس کے بعد ایس ایس پی کی جانب سے کارروائی کرنے کے بیانات سامنے آئے اور پھر ان متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا۔

عامر کے بارے میں ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ پشاور میں ایک شادی ہال میں ویٹر کے طور پر کام کرتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے شادی ہالوں کی بندش کے بعد وہ تین ماہ سے بےروزگار تھا۔

اس بارے میں تصدیق کے لیے عامر یا اس کے خاندان کے افراد سے رابطے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

تہکال کے رہائشی عامر کی ویڈیو کے بعد پشاور کے نواحی علاقے رشید گڑھی سے بھی ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں ایک نوجوان اپنا موقف دیتے ہوئے عامر کے موقف کی تائید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ عامر کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کرنا ہے کر لے۔

پولیس نے بعدازاں اس شہری کو بھی گرفتار کیا اور اس کی بھی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں اسے پولیس اہلکاروں کے سامنے معافی مانگتا ہوا دکھایا گیا ہے اور وہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس نے غلطی کی ہے۔

پولیس اہلکاروں کے تشدد کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مثالی پولیس کے الفاظ استعمال کرکے خیبر پختونخوا پولیس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس اصلاحات کا ایجنڈا صرف دفاتر کی تزئین و آرائش اور مہنگی گاڑیوں کی خریداری تک محدود تھا اور تھانے اصلاحات کا حصہ نہیں تھے۔

اتوار، 21 جون، 2020

ممتاز عالمِ دین اور جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم انتقال کرگئے


جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم انتقال کرگئے۔ ترجمان جامعہ بنوریہ کے مطابق مفتی نعیم طبیعت خراب ہونے پر ہسپتال لے جاتے ہوئے انتقال کرگئے۔

ترجمان نے بتایا کہ مفتی نعیم کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا جب کہ وہ طویل عرصے سے دل کےعارضے میں مبتلا تھے۔

مفتی نعیم کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصر ادا کی جائے گی اور تدفین بنوریہ عالمیہ کے قبرستان میں ہوگی۔

 مفتی نعیم سائٹ ایریا میں واقعے جامعہ بنوریہ کے مہتمم تھے جہاں 52 ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں، مرحوم نے سوگوارن میں بیوہ، 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں چھوڑی ہیں۔

مفتی محمد نعیم 1958 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور  ابتدائی تعلیم اپنے والد قاری عبدالحلیم سے حاصل کی، 1979 میں جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون سےفارغ التحصیل ہوئے اور وہیں 16 سال تک بطور استاد خدمات انجام دیں، ان کا شمار جامعہ  کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔

مفتی نعیم 7 جلدوں پر مشتمل تفسیر روح القرآن، شرح مقامات، نماز مدلل اور دیگر کتب کے مصنف ہیں۔

وزیراعظم،آرمی چیف، قائد حزب اختلاف اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات کا اظہار تعزیت
وزیراعظم عمران خان نے مفتی محمدنعیم کےانتقال پرگہرے دکھ اور افسوس کااظہار کرتے ہوئے مرحرم کےدرجات کی بلندی کی دعا کی ہے اور غم زدہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے بھی مفتی محمد نعیم کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ  اللہ تعالی مفتی  نعیم کے درجات بلند فرمائے اور غم زدہ خاندان کو صبرجمیل دے۔

صدر مسلم لیگ (ن) اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے بھی اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی محمد نعیم کی رحلت ملک وملت کے لیے بڑا نقصان ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دین کی تبلیغ، ترویج اور اشاعت کے لیے مفتی نعیم کی عظیم خدمات تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور جامعہ بنوریہ جیسی علمی درس گاہ مفتی محمد نعیم کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔

جمعہ، 19 جون، 2020

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا


پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

پاکستان کی سپریم کورٹ کے دس رُکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر جمعے کی صبح فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کی شام سنایا گیا۔

عدالت نے جمعے کو سماعت کے موقع پر درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سماعت سے پہلے وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے ایف بی آر کی دستاویز سر بہ مہر لفافے میں عدالت میں جمع کرادیں، جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے کیوں کہ درخواست گزار کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لا چکی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کروائیں۔

بعدازاں منیر اے ملک نے جمعے کو اپنے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کی جائیداد کو خود سے منسوب نہیں کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور اُن کی برطرفی کا حوالہ دیا اور حقیقت یہ ہے کہ جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ کہا کہ اُن کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے اور اُن کے دلائل سے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟

اُنہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اِنکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور منی لانڈرنگ کا ذکر ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔

درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل بدقسمتی سے غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ایف بی آر میں لے جانے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی۔

اُنہوں نے کہا کہ ایف بی آر اپنا کام کرے اور درخواست گزار نے اس میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔ اُنہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے اور ‏سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اُنہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو کا قیام قانون کے خلاف ہے اور وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کے لیے رولز میں ترمیم ضروری تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے ‏باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔

بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ افریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کے موکل کو ملنے والے شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ‏جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چاہیے وہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔

اُنہوں نے کہا کہ ‏لندن میں جائیدادوں کی تلاش کےلیے ویب سائٹ استعمال کی گئی جس کےلیے کسی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کےلیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ فرد کو ای میل کرتی ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ‏ضیاءالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں۔ اُنہوں نے کہا کہ لندن میں جن سیاسی شخصیات کی سرچ کی گئی اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت رسیدیں دے تو سامنے آ جائے گا کہ اُن کے موکل کی اہلیہ کی جائیدادیں کس نے تلاش کیں۔

اُنہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے تو ایک جائیداد کا بتایا تھا اور اگر اُن کے موکل کی اہلیہ کی جائیداد کی سرچ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کیں تو وہ رسیدیں دے۔ اس پر بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وفاق کے وکیل کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججوں کے خلاف لیتے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے اور یہ فیصلہ اُن کے موکل نے لکھا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ نے لندن میں اِن جائیدادوں سے متعلق منی ٹریل سے متعلق دستاویز جمع کروا دی ہے اور اس کے علاوہ زرعی زمین کی دستاویزات اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کروائی ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کےلیے سپریم کورٹ کے حکم پر جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے کہا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ‏الزام عائد کیا گیا کہ اُن کے موکل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ سوال اُٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟

منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سندھ بار کونسل کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے اور حکومت کے مطابق وزیرِاعظم ادارہ بنا سکتے ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا ‏قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں، اُن کو قانون کی مدد بھی حاصل ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے جب کہ ‏اے آر یو یونٹ کےلیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

‏سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اس بارے میں بینچ کے ارکان شام چار بجے اکٹھے ہوں گے اور اگر ججوں کا کسی ایک معاملے پر اتفاق ہوا تو اس بارے میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

سماعت ختم ہونے کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ آئے اور کیا اُنہوں نے بنیادی حق استعمال کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا اس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطۂ اخلاق کے منافی نہیں؟ جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج صاحب اپنی ذات ک لیے آئے تھے یا عدلیہ کے لیے؟

اُنھوں نے کہا کہ ”آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نہ جانے کس کے خلاف ہو“۔

بدھ، 17 جون، 2020

اُستاد کی عزت کرنا سیکھیں


اُستاد کسی بھی معاشرے میں اِکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرے کو سُدھارنے میں اُستاد کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوتی ہے۔ ایک بگڑے ہوئے سماج میں اُستاد ہی سُدھار لا سکتا ہے۔ اُستاد کا مقام بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اُستاد ہی کی بدولت بنی نوع انسان نے فرش سے عرش تک سفر کیا۔ اُستاد نے بہشت اور دوزخ کی سیر کرائی۔ اُستاد کی عظمت اور رفعت کی اگر بات کی جائے تو دنیا میں کوئی بھی ایسا پیمانہ نہیں جو اِس کو تول سکے۔ اہلِ قلم اپنے استاد کی عزت اور عظمت کی خاطر الفاظ کے درلنڈھانے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ 

اُستاد کو معمارِ وطن اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ قوم کا پیکر تراشتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے اساتذہ پر ہوتا ہے۔ کیوں کہ اُستاد ہی سائنس دان، سیاست دان، کیمیادان، ماہرِ فلکیات، ماہرِ ارضیات، ڈاکٹر، انجینئر یا آسمان کی اونچائی تک اُڑان کرنے والا ہوا باز تیار کرتا ہے۔ اگر اس دنیا میں رحمت اللعالمین اُستاد بن کر نہ آتے تو عرب کے بُت پرست اور آتش پرست لوگوں جہالت کی اندھیروں سے اسلام کے اُجالوں میں کون لے کر لاتا؟ اگر اُستاد رحمت بن کر نہ آتے تو زندہ درگور بچیوں کی چیخ و پُکار کون سنتا۔ جس طرح خاتم النّبین نے اُستاد بن کر عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کو ایک مثال بنایا۔ اِس طرح وہ اِس دور کے اساتذہ کےلیے ایک مشعل راہ بن گئے۔ اب چوں کہ سماج بدل چکا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے تو زیادہ محنت لگن اور جذبے سے دونوں سرکاری اور نجی اداروں میں اساتذہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قوم وملّت کو اچھے سے اچھے طریقے سے سنوارتے ہیں۔

اگر پاکستان اپنے وجود میں آنے کے ستر سال بعد بھی ترقی پذیر ہے تو اس میں بڑی وجہ اُستاد کی تحقیر کرنا اور اسے حقارت کی نظروں سے دیکھنا بھی ہوسکتا ہے۔ جو وقار قوم و ملت کو ملا ہے، وہ اُستاد کی مرہون منت ہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اگر دیکھا جائے تو وہاں اُستاد کی عزت، رتبہ اور مقام وزیرِ اعظم اور صدر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں اُستاد کی عزت اتنی ذیادہ ہے کہ سڑک پار کرتے وقت ٹریفک روک لی جاتی ہے۔ مرتبہ اتنا بڑا کہ عدالت میں اُسے کرسی پیش کی جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ اُستاد ہی سماج کا محسن اور معمار ہے۔ 

بابا اشفاق احمد اپنی کتاب ”زاویہ“ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز میں اٹلی میں گاڑی چلا رہا تھا، میں نے ٹریفک سگنل توڑا جس پر میرا چالان ہوا۔ اگلے ہی روز میں جج کے سامنے عدالت میں حاضر ہوا۔ جب جج نے پوچھا کہ چالان جمع کرانے میں دیر کیوں ہوئی؟ تو میں نے کہا کہ میں پروفیسر ہوں، پڑھاتا ہوں اس لیے دیر ہوئی۔ اس پر وہ جج اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہوا اور زور سے سے کہا کہ ایک استاد کٹہرے میں! 
وہ اپنا نشست چھوڑ کر میرے پاس آئے اور مجھ سے معافی مانگی۔ اور پھر پورے عدالت کے لوگ اکٹھا ہو کے مجھے باعزت اور با وقار طریقے سے وہاں سے رخصت کرنے لگے۔ کہتے ہیں اس دن میں  نے اُن قوموں کی ترقی کا راز جان گیا۔

لیکن ہمارے ہاں اُستاد کی تذلیل کرنا، اُسے گالیاں دینا اور دھمکانا ڈرانا نہ صرف طلبہ بلکہ والدین کا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ایک تبدیلی سرکار کے ذمہ دار رُکن کی سرکاری اساتذہ کے خلاف بیان بازی نے ایک نیا سماں باندھ لیا ہے۔ اس صاحب کو یہ بتا دینا چاہیے کہ آپ بھی کھبی اساتذہ کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ تب آپ اس قابل ہوئے کہ ”وزیر“ بنے ۔آپ جو آج کاغذ پہ لکھے الفاظ اسمبلی ہاؤس میں کھڑے ہوکر زباں پہ ادا کرتے ہے، یہ اُستاد ہی کی بدولت ہے۔ 

جناب، بولنے سے قبل سوچیں۔ تمام اساتذہ سے معافی مانگیں، ورنہ اُستاد کی بد دُعا رد نہیں ہوتی۔ اللہ مجھے اور آپ سب قارئین کو استاد کا عزت کرنے والا بنائے، آمین 
                           
                   تحریر: شانزیب خان اخون خیل 

معروف ٹی وی کمپیئر طارق عزیز انتقال کرگئے


لاہور: معروف اداکار، کمپئیر، ادیب، سیاست دان اور شاعر طارق عزیز حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔
معروف کمپئیر اور سابق رُکنِ قومی اسمبلی طارق عزیز کے بیٹے نے والد کے انتقال کی تصدیق کردی۔

طارق عزیز نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، آپ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی ) کے پہلے اینکر تھے اور اُنہوں نے نومبر 1964 میں لاہور سے پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز کیا تھا۔

بعدازاں 1975ء میں شروع ہونے والے پروگرام ”نیلام گھر“ نے طارق عزیز کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

معروف ادیب و سیاست دان طارق عزیز کو حکومت پاکستان نے 1992ء میں حسنِ کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا۔

طارق عزیز نے کئی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور  1997ء سے 1999ء تک سابق رکن قومی اسمبلی بھی رہے۔

منگل، 16 جون، 2020

پشاور ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان، فواد چوہدری سمیت دیگر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا


پشاور (عصرنو) پشاور ہائی کورٹ نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کے جج اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے پر توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے۔

تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی، عدالت نے وزیراعظم عمران خان، وزیر قانون، وزیر سائنس ٹیکنالوجی فواد چوہدری، سابق مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور پیمرا کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیے۔عدالت نے خصوصی عدالت کے جج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر 14 روز میں جواب طلب کیا۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ سال سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے تھا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ۔

جسٹس سیٹھ وقار، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت نے یہ مختصر فیصلہ منگل کی صبح سنایا۔یہ ایک اکثریتی فیصلہ ہے اور بینچ کے تین ارکان میں سے دو نے سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ ایک رکن نے اس سے اختلاف کیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔

تمام تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھول دی جائیں، متحدہ طلبہ محاذ


اگر بازار، شاپنگ مالز اور دیگر شعبہ جات کھل سکتے ہیں تو تعلیمی ادارے ایس او پیز کے تحت کھول دینے میں کیا حرج ہے؟ شہاب باغی 

سوات (عصرنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے صدر شہاب باغی کے زیر صدارت متحدہ طلبہ محاذ کا ایک  ہنگامی اجلاس کل مکانباغ مینگورہ میں منعقد ہوئی جس میں پختون ایس ایف، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، جمعیت طلبہ اسلام، اسلامی جمعیت طلبہ، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن، شانگلہ سٹوڈنٹس سوسائٹی، گجر سٹوڈنٹس فورم اور دیگر طلبہ یونین کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کورونا کی پیش نظر طلبہ کو درپیش مسائل پر بحث کی گئی۔ 

تفصیلات کے مطابق متحدہ طلبہ محاذ نے 12 رکنی کمیٹی بنائی ہے جس کی صدارت پختون ایس ایف سوات کے صدر شہاب باغی کریں گے۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کرکے حکومت کو پیش کردیے۔ اس سلسلے میں کمیٹی ارکان کچھ دنوں میں صوبائی وزیر تعلیم سے اہم ملاقات کرے گی۔ اگر اس کے باوجود ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کریں گی، تو متحدہ طلبہ محاذ صوبہ بھر میں احتجاج کی کال دیں گے اور ہر جگہ پرامن احتجاج ریکارڈ کیا جائے گا۔

کمیٹی نے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کردیے جو کچھ یوں ہے۔ 

حکومت اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرکے طلبہ کو (Previous Base GPA) پر پروموٹ کریں۔ 

☆ اگر حکومت آن لائن کلاسسز کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، تو تمام طلبہ کو انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے سہولیات فراہم کریں۔ 

☆ حکومت تمام یونیورسٹیز کو ایس او پیز کے تحت کھول دی جائیں۔ 

☆ طلبہ کےلیے تمام سکالرشپس پروگرام بحال کیا جائے۔

☆ پرائم منسٹر لیپ ٹاپ سکیم کو فی الفور بحال کیا جائے۔

☆ غریب طلبہ کےلیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائیں۔ 

☆ حکومت طلبہ سے متعلق جو بھی فیصلہ کرتی ہے، اس میں طلبہ یونین کو اعتماد میں لیا جائے۔ 

☆ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں مالی بحران کا سامنا ہے، لہذا سمسٹر فیسوں کو پچاس فی صد تک معاف کیا جائے اور تمام لیٹ فیسوں کو ختم کیا جائے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ہمارے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ہم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

ہفتہ، 13 جون، 2020

آٸینہ اُن کو دکھایا تو بُرا مان گئے


ملک میں جو افلاطون اور حقیتِ ناشناس بلکہ شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے خلاف بول رہے ہیں، اور ان ناگُفتہ بہہ حالات میں قناعت اور صبر کی تعلیم دے رہے ہیں، اِن جاہلوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خیرات ہمیشہ اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذہ آپ جیسے غیرت مند حکومت سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی کرے کہ اگر مملکتِ خداداد واقعی حالتِ جنگ میں ہے تو پھر آپ نے پچھلے دو سالوں کے دوران چاروں صوبائی اسمبلیوں، ایک قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہزاروں ارکان کی تنخواہوں میں ایک ہزار فیصد تک اضافہ کیوں کیا گیا۔۔۔؟ کیا اُس وقت خزانہ خالی نہیں تھا۔۔۔؟

اگر آپ اپنی نابینا آنکھوں سے پٹیاں اُتار کر دیکھ لیں تو وہ دن یاد ہوگا جب پنجاب اسمبلی نے اپنے ارکان کی تنخواہوں میں دو سوفیصد اضافے کی سفارش وزیرِاعظم کو بھیج دی اور اُنہوں نے جب یہ سفارش مسترد کی تو پتہ ہے کیا ہوا۔۔۔؟ اسی اسمبلی نے وزیراعظم کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ازخود اپنی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کردیا، اور کیا یاد ہے وہ دن جب پچھلے سال یعنی حکومت کو بنے ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کیا۔۔۔؟ 

اور اگر شرم و حیاء کی کوئی جھلک باقی ہو تو یہ بھی نوٹ فرمالیں کہ پچھلے سال ہر فوجی کی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ کیا گیا، جب کہ باقی تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف پانچ فیصد اضافہ کرکے اوپر سے اُن پر بھاری ٹیکسز عائد کیے۔ عمرانی حکومت میں پروفیسر سے جتنا ٹیکس کاٹا جاتا ہے، برائی مہربانی وہ خود بتا دیجٸےگا۔ 

وہ دانشور جو کہتے ہیں کہ دفاعی بجٹ پر بات نہ کریں اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ دفاعی بجٹ اس سال تقریباً کل بجٹ کا 19.5 فیصد بنتا ہے جو سابقہ سارے بجٹ سے ذیادہ ہے اور وہ بھی اس وقت جب آپ کشمیر کا سودا کرچکے اور دُشمن کے ساتھ ہرقسم جنگ سے توبہ تائب ہوئے۔ تو پھر اِن ناگفتہ بہہ حالات میں 11 فیصد اضافہ کیوں۔۔۔۔؟

وہ افلاطونِ زمانہ جو کہتے ہیں کہ تعلیم اور صحت صوبائی شعبے ہیں، تو اُن کےلیے عرض ہے کہ پاکستان ایک ایسا وفاق ہے جہاں مالی معاملات میں صوبے طوعاً و کرھاً مرکزی حکومت ہی کو فالو کرتے ہے اور آپ صوبائی حکومتوں کے کارنامے بھی بجٹ میں دیکھیں گے۔ یہ بھی کنفرم کیجٸے گا کہ این ایف سی ایوارڈ اور دیگر رائلٹیز کے مد میں مرکز صوبوں کا کتنا مقروض ہے۔۔؟ صوبے تو یہی بہانہ بنائیں گے کہ جب مرکز نے نہیں کیا تو ھم کیوں کریں۔۔؟ ہمارے پاس ہے کیا۔۔۔؟ 

بجلی، ٹیلی فون، بینک، ڈاک خانے، ریلوے، پولیس، وفاقی کالجز، ایٸرلائنز اور شِپنگ وغیرہ جو اسلام آباد سے باہر صوبوں کے اندر اپریشن میں مصروف ہوتے ہیں وہ وفاقی ملازمین ہوتے ہیں۔ جب اُن کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا تو کیا صوبے اُنہیں جواز نہیں بنائیں گے۔

ہاں چونکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو شاید وہاں معاملہ اُلٹ ہوجائے اور وہ اپنے ملازمین کے ساتھ احسن معاملہ کرے جیسا کہ سابقہ ادوار میں بھی صرف PPP ہی سرکاری ملازمین کی اہمیت و افادیت سمجھ چکی تھی۔

باقی سب کو چھوڑئیے، اِن دو سالوں میں ڈرگ مافیا نے ادویات کی قیمتوں میں کتنا فیصد اضافہ کیا۔۔۔۔؟ ہے اس ملک میں حکومت نامی کوئی چیز جو اُن سرمایہ داروں سے پوچھے۔۔۔ ؟ چینی، آٹا اور دیگر چوروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی۔۔۔؟
اپنی بے حِسی کے دائرے سے ذرا باہر نکل کر آپ نے کبھی یہ  بھی پوچھا ہے کہ ملک کی 72 سالہ تاریخ میں شرح نمو زیرو سے کیوں نیچے آگیا۔۔۔۔؟ وزیرِ اعظم ہاؤس اور پزیذیڈنٹ ہاؤس کے اخراجات اور شاہ خرچیوں میں دو سالوں کے اندر کتنا اضافہ کیا گیا۔۔۔؟

سرکاری ملازمین کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ملک اور ملک کے بہت سارے اداروں اور شعبہ جات کو چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ حکومتیں اُن کے خون پسینے کی کمائی پر قبضہ جماکر اُن کی جائز مطالبات اور تمنّاووں کا خون کرتی ہیں تو پھر ریاست کی بنیادیں کھوکھلا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

لہذا آج امر اس بات کی ہے کہ جکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ اپنی ہم نواوؤں کو نوازنے کی بجائے غریب عوام پر توجہ دے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے بجائے عوام دوست نظام لایا جائے۔ شرح نمو کو بڑھانے کےلیے عملی اقدامات کیا جائے۔ تعلیمی پالیسی کو جدید خُطوط پر استوار کیا جائے اور نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی پالیسی تَرک کیا جائے ورنہ بقولِ شاعر!
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

تحریر: جمشید خان
لیکچرار شعبۀ سیاسیات،
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج تیمرگرہ

بدھ، 10 جون، 2020

پختون ایس ایف خیبر پختونخوا نے آن لائن کلاسز کی مخالفت کردی


تمام شعبہ جات کُھلنے کے بعد تعلیمی اداروں کو بھی کھولنے کا اعلان کیا جائے، صوبائی چیئرمین جمشید وزیر کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب

پشاور (پریس ریلیز) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن نے آن لائن تعلیم کی مخالفت کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فیڈریشن کے صوبائی چیئرمین جمشید وزیر، صوبائی جنرل سیکرٹری سہیل اختر، اسلامیہ کالج کے چیئرمین نعمان شیر، جنرل سیکرٹری جنید اسرار، ایگریکلچر یونیورسٹی کے سینئر نائب صدر توقیر احمد، چیئرمین ڈسٹرکٹ پشاور سلمان نشنلسٹ، جنرل سیکرٹری سوات طارق باغی، سوات یونیورسٹی کے جنرل سیکرٹری محمد عامر خان، چیئرمین چارسدہ ذیشان پختون یار اور مرکزی رہنماء اعجاز یوسفزئی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے تعلیمی پالیسی مرکزی حکومت کی طرف سے جاری کرنا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور اٹھارویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ کورونا کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام طلباء کے فیسوں کو معاف کیا جائے۔ حکومت آن لائن کلاسوں کے شروع ہونے سے پہلے نیٹ ورک کی سہولت طالبعلموں کو فراہم کرے اور خصوصاً ضم اضلاع میں تھری جی اور فور جی نیٹ ورک فعال کیا جائے یا ضم اضلاع سمیت دور درازعلاقوں کے طلباء کےلیے ہاسٹل کی سہولت کا بندوبست کیا جائے۔ بصورت دیگر ہم آن لائن کلاسوں کو مسترد کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا وباء کے باعث لاک ڈاؤن تھا جو تقریباً ختم ہو گیا ہے جس کے تحت بازاریں اور تمام شعبہ جات کھل چکے ہیں مگر تعلیمی ادارے اب بھی بند ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ مزید براں سٹوڈنٹس یونینز کو فوری طور پر فعال کیا جائے تاکہ طلبہ کو درپیش مسائل فوری طور پر حل کئے جاسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ  صوبے کے تمام یونیورسٹیوں میں مستقل سٹاف کے ساتھ مستقل وائس چانسلروں کی تقرری کی جائے، جب کہ طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔ 

منگل، 9 جون، 2020

متحدہ طلبہ محاذ کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہیں، پختون ایس ایف سوات


کالام ڈگری کالج کی مٹہ (وینئی) منتقلی کالام کے نوجوانوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی مترادف ہیں، شہاب خان باغی 

سوات (عصرِنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے صدر شہاب باغی نے کہا ہے کہ متحدہ طلبہ محاذ کی تمام مطالبات کے حمایت کرتے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی تمام مطالبات جائز اور حق پر مبنی ہے۔ ہم اُنہیں یقین دلاتے ہے کہ پختون ایس ایف سوات آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گی۔ 

ضلعی جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کالام کےلیے منظور شدہ ڈگری کالج کی مٹہ (وینئی) منتقلی کالام کے نوجوانوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی مترادف ہیں، جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ 

جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت اگر ایک طرف تعلیمی ایمرجنسی کے بلند و بالا دعوے کررہی ہے تو دوسری طرف طلبہ کےلیے مشکلات پیدا کرکے اُنہیں تعلیم سے دور رکھنے کی گھناؤنے سازشیں کر رہے ہیں۔ اگر حکومت اپنی تعلیم شکن پالیسیوں سے باز نہ آئی تو مجبوراً ہم کلاسز کا بائیکاٹ کریں گے اور حکومتی پالیسی کے خلاف وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائیں گے۔ 

پیر، 8 جون، 2020

اے این پی کے سینئر رہنماء ظاہر شاہ ایڈوکیٹ انتقال کر گئے


ظاہر شاہ خان ایڈوکیٹ بہ یک وقت ایک معروف قانون دان اور بہترین سیاست دان تھے، لیکن کورونا کو شکست دینے میں ناکام ہوتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے سینئر رہنماء اور مرکزی مجلس عاملہ کے ممبر، مٹہ بار کونسل کے سابق صدر اور معروف قانون دان محمد ظاہر شاہ خان ایڈوکیٹ کورونا وائرس کے باعث انتقال کرگئے۔ 

تفصیلات کے مطابق اے این پی کے رہنماء گزشتہ کئی دنوں سے کورونا وائرس میں مبتلا تھے، اور آج اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ موصوف کا نمازِ جنازہ آج اُن کے آبائی گاؤں شکردرہ مٹہ میں ادا کی جائے گی۔ 

یاد رہے کہ مرحوم اے این پی تحصیل مٹہ کے سینئر نائب صدر انجنیئر داود شاہ کے بڑے بھائی تھے۔ 

ہفتہ، 6 جون، 2020

300 سے زائد کتب لکھنے والے معروف سندھی قوم پرست ادیب کی قبر کو کیوں زنجیروں سے باندھ دیا گیا ہے؟


سندھ کے معروف قوم پرست ادیب اور تاریخ نویس عطاء محمد بھنبھرو نوے (90) برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ موصوف نے 300 سے زائد کتابیں لکھیں ہیں۔ 

کراچی (عصرِنو) عطاء محمد بھنبھرو سندھ کی تاریخ کے موضوع پر 40 سے زائد کتابوں کے مصنف اور مُترجم ہیں۔ اُن کی آخری وصیت کے مطابق اُن کی قبر کو چاروں اطراف سے زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ آپ آزاد سندھ کے حامی تھے، اور اُنہوں نے وصیت میں کہا تھا کہ ”میرے قبر کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کہ یہاں ایک غلام قوم کا غلام فرد سو رہا ہے۔“ 

عطا محمد بھنبھرو نے 2012ء میں آزاد سندھ کے حامیوں اور ہندوؤں سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاجاً صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کیا تھا۔ 

2015ء میں عطاء محمد بھنبھرو کے بیٹے راجہ داہر بھی لاپتا کردیئے گئے تھے، جس کے بارے میں آپ کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ” اُن کا بیٹا راجہ داہر گاؤں میں زمینیں سنبھالتا ہے اور چار جون کی شب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن کے گاؤں بچل بھنبھرو کا محاصرہ کرکے اُن کے بیٹے کو حراست میں لے لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے اپنے ساتھ لے گئے۔“

عطا محمد بھنبھرو کا دعویٰ تھا کہ اُن کا بیٹا کبھی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہا بلکہ وہ ایک سنجیدہ قوم پرست سیاسی کارکن ہے اور اس پر کوئی مقدمہ بھی درج نہیں۔

اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اُن کے نوجوان بیٹے کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا جائے گا، یا تشدد میں ہلاک کرکے مسخ شدہ لاش پھینک دی جائے گی۔ جیسے اس سے پہلے بھی قوم پرست کارکنوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ 26 جولائی 2015ء کو اُن کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا، اور بعد میں اُن کی لاش ملی۔ جس کےلیے وہ انصاف کی دہائی دیتے رہے، مگر اُنہیں انصاف نہیں ملا۔

جمعہ، 5 جون، 2020

حکومت آن لائن کلاسز کےلیے طلبہ کو سہولیات فراہم کریں، پختون ایس ایف سوات


حکومت طلبہ سے متعلق فیصلے کرنے سے پہلے تمام طلبہ یونین کو اعتماد میں لیں، بصورتِ دیگر ہم قانونی طور پر اس کے خلاف درخواست جمع کریں گے، شہاب خان باغی کا پریس کانفرنس سے خطاب  

سوات (عصرِنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) ضلع سوات کے صدر شہاب باغی نے موجودہ تعلیمی بحران، کورونا وائرس کی وباء اور آن لائن کلاسز سمیت دیگر معاملات پر 08 نکاتی ایجنڈے کو حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے سامنے پیش کردیا۔

اس موقع پر اُن کے ساتھ پختون ایس ایف کے ضلعی جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی، سوات یونیورسٹی کے صدر و جنرل سیکرٹری اور تمام کالجز کے صدور اور سیکرٹریز بھی موجود تھے۔ 
☆ حکومت اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرکے طلبہ کو (Previous Base GPA) پر پروموٹ کریں۔ 

☆ اگر حکومت آن لائن کلاسسز کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی، تو تمام طلبہ کو انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے سہولیات فراہم کریں۔ 

☆ حکومت تمام یونیورسٹیز کو ایس او پیز کے تحت کھول دی جائے۔

☆ طلبہ کےلیے تمام سکالرشپس پروگرام بحال کیا جائے۔

☆ پرائم منسٹر لیپ ٹاپ سکیم کو فی الفور بحال کیا جائے۔

☆ غریب طلبہ کےلیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔ 

☆ حکومت طلبہ سے متعلق جو بھی فیصلہ کرتی ہے، اس میں طلبہ یونین کو اعتماد میں لیا جائے۔ 

☆ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں مالی بحران کا سامنا ہے، لہذا سمسٹر فیسوں کو پچاس فی صد تک معاف کیا جائے اور تمام لیٹ فیسوں کو ختم کیا جائے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ہمارے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ہم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

بدھ، 3 جون، 2020

ضلع سوات میں پیٹرول کی قلت، عوام کو مشکلات کا سامنا


سوات (عصرِنو) ضلع سوات کے مختلف شہروں میں پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی قلت کا سامنا، رش کی وجہ سے کورونا ایس او پیز نظر انداز، انتظامیہ اور پولیس خاموش 

ضلع سوات کے مختلف شہروں میں پیٹرول کی قلت نے شدت اختیار کرلی، پیٹرول نا ملنے کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

 یکم جون کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی گئی جس کے بعد مختلف نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے آوٹ لیٹس پیٹرول نایاب ہوگیا، پمپس پر بائیک اور اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں، اور مختلف پیٹرول پمپس مالکان نے پیٹرول پمپس بند کرکے پیٹرول نا ہونے کے بورڈ لگا دیئے۔ اس صورتحال پر عوام میں غم و پریشانی کی کیفیت نظر آرہی ہے، شہریوں نے ایسے پمپ مالکان کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

تحصیل مٹہ کے ایک پمپ میں لوگ پیٹرول کی حصول کےلیے قطار میں کھڑے ہیں

علاوہ ازیں جن پمپس پر پیٹرول دستیاب تھا، وہاں عوام کا زیادہ رش دیکھنے میں آیا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد نقصان سے بچنے کےلیے پمپ مالکان کی جانب سے آئل کی خریداری نہیں کی گئی جس کے باعث شہر کے متعدد علاقوں میں پیٹرول کی دستیابی متاثر ہوئی۔

پیٹرول کی حصول کےلیے ٹریفک اہلکار بھی پمپ میں موجود ہے

اس پوری صورتحال میں پی ایس او کے تمام پمپس پر فیول دستیاب رہا تا ہم باقی ماندہ پمپس پر پیٹرول نا ملنے کے سبب پی ایس او پمپس پر بہت زیادہ رش کی صورتحال دیکھنے میں آئی۔ اس حوالے سے ترجمان پی ایس او کی جانب سے جاری کیے بیان کے مطابق بھی پی ایس او کے پاس فیول کا تسلی بخش ذخیرہ موجود ہے اور ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل فراہمی جاری ہے۔

منگل، 2 جون، 2020

کچھ اِنڈس کوئین کے بارے میں


ریاستِ بہاولپور کے نواب صادق محمد خان نے 1867ء میں ایک عالی شان بحری جہاز بنوایا، نواب فیملی یہ جہاز دریائے ستلج (جوکہ ریاست اور انگریز زیرِ انتظام علاقہ ملتان کے درمیان بہتا تھا) میں سیر و سیاحت کی غرض سے اپنے زیرِ استعمال لاتی رہی۔

 اس جہاز میں تین پورشن تھے۔ سب سے نچلے حصّے میں جہاز کا عملہ رہتا تھا، درمیانی حصہ نواب فیملی کےلیے مختص تھا، جہاں پر ایک بار روم بھی قائم تھا۔ جب کہ اوپر والے حصّہ کھلے یارڈ (صحن) پر مشتعمل تھا، جس پر ایک مسجد اور کپتان روم واقع تھا۔

 جہاز میں لائیٹ کےلیے جرنیٹر سسٹم نصب تھا۔ جہاز کو چلانے کےلیے طاقتور ڈیزل انجن لگا ہوا تھا۔ اپنے عروج کے زمانے میں انگریز اور میم صاحب نواب فیملی کے ساتھ جہاز میں سیر وسیاحت پر آتے رہتے تھے۔ بعد ازاں یہ جہاز نواب صادق محمد خان نے لودھراں اور بہاولپور کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کےلیے مخصوص کر دیا۔

 جب پاکستان بننے کے بعد دریائی پانیوں کے معاہدے ہوئے تو ستلج میں پانی کم ہوا اور پُل کی تعمیر ہونا شروع ہوئی تو نواب نے 1957ء میں اسے غازی گھاٹ پر بھیج دیا، جہاں پر یہ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کےلیے استعمال ہوتا رہا۔ تاہم پانی کے تیز بہاؤ کے پیشِ نظر نواب صاحب نے یہ جہاز خواجہ غلام فرید کی خدمت میں پیش کیا۔ جہاں پر یہ چاچڑاں شریف اور کوٹ مٹھن شریف کے درمیان عقیدت مندوں اور دیگر مسافروں کی باربرداری کےلیے استعمال ہوتا رہا۔ جسے قادر بخش نامی ملّاح (جو کہ محکمہ ہائی وے کا ملازم بھی تھا) چلاتا تھا۔

اِنڈس کوئین کا ایک یادگار تصویر

جب سردیوں میں دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا اور کشتیوں کا پُل ڈال کر آمدورفت کےلیے راستہ بنایا جاتا، تو اس جہاز کی ضروری مرمّت بھی کر دی جاتی۔ دریائے سندھ جس کو ”اِنڈس ریور“ بھی کہا جاتا ہے، میں چلنے کی وجہ سے اس جہاز کا نام ستلج کوئین سے تبدیل کرکے انڈس کوئین رکھ دیا گیا۔ 

1998 تک یہ جہاز دریائے سندھ میں چلتا رہا، لیکن جب بے نظیر برِج مکمل ہوا تو اس جہاز پر لوگوں کی آمدورفت بھی کم ہوتی چلی گئی۔ اس بحری جہاز کی سروس کو بند کرتے ہوئے راجن پور اور کوٹ مٹھن کے درمیان پل سے ذرا دور کرکے لنگر انداز کر دیا گیا، اور یوں ایک شاندار جہاز جس پر 400 کے لگ بھگ لوگ ایک وقت میں محوِ سفر ہوتے تھے، کا سفر اختتام پزیر ہو گیا ہے اور اب یہ اپنی بے بسی کی تصویر بنا ریت میں دھنسا پڑا ہے۔

پیر، 1 جون، 2020

تحصیل مٹہ کے نوجوانوں کی انسداد منشیات تحریک


گزشتہ کئی دنوں سے تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ کے نوجوانوں نے معاشرے کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کےلیے ”انسداد منشیات تحریک“ کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں گیارویں رمضان المبارک کو رات گیارہ بجے حکیم زے برادران کے حجرہ برہ درشخیلہ میں ایک عظیم الشان جرگہ منعقد ہوا، جس کی میزبانی پشتو زبان و ادب کے درخشاں ستارے پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے اور ان کے ہونہار بھتیجے سنگر خان نے کی۔ اس جرگے میں برہ درشخیلہ سے تعلق رکھنے والے مخلتف مکتبہ فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ 

یہ تحریک کیوں شروع کی گئی، جرگہ بلانے کا مقصد کیا تھا، جرگہ کے اغراض و مقاصد کیا ہے، جرگہ نے اب تک کیا کامیابیاں سمیٹی ہے؟ اس طرح کے ڈھیر سارے سوالات کے جوابات حکیم زے خاندان کے چشم و چراغ سنگر خان کے اِک مختصر سی انٹرویوں کی خلاصہ میں ذیل ملاحظہ ہو:

”ہم سات دوستوں نے اپنے گاؤں (برہ درشخیلہ) میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو کرنے کےلیے ایک جرگے کی ضرورت محسوس کی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اعتماد میں لینے کے بعد جرگہ بلانے کا حتمی فیصلہ ہوا، اور یوں ہم نے گیارویں رمضان المبارک کو رات گیارہ بجے جرگے کا اہتمام کیا۔ جرگے کو پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے، سنگر خان، ڈاکٹر نواب شیر، ڈاکٹر نجیب، شاہد باز خان، نثار گران خان، شباب خان اور علی خان دیگر مقررین نے خطاب کیا۔ جرگے نے 25 رکنی کمیٹی بنائی جس  نے اپنی مشترکہ اعلامیہ میں حکومت، انتظامیہ، پولیس، وکلاء اور سیاسی شخصیات سے کچھ مطالبات کیے جو کچھ یوں ہیں۔ 

☆ حکومتی مطالبات: حکومت ہر شہری کو سستا تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو روزگار فراہم کرنے کی مواقع پیدا کرے۔ ضلع میں تحصیل کی سطح پر ری ہیبیلیٹیشن سنٹر (Rehabilitation Center) قائم کرنے کےلیے عملی اقدامات اٹھایا جائے۔ معاشرے کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کےلیے سخت سے سخت قانوں سازی کرکے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ 

☆ انظامیہ سے مطالبات: انتظامیہ منشیات فروشوں اور ان کے حواری سرکاری افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو نشان عبرت بنائے۔ 

☆ پولیس سے مطالبہ: پولیس انتظامیہ سے مل کر منشیات فروشوں کو گرفتار کرنے کےلیے عملی اقدامات اٹھائیں اور ان پر مقدمات بناتے وقت ان میں ایسے دفعات شامل کیا جائے جو ناقابل ضمانت ہو۔ 

☆ وکلاء اور بار سے مطالبہ: وکلاء منشیات فروشوں کا کیس لڑنے سے معذرت کرکے ان کی دفاع کرنے سے گریز کریں۔ 

☆ سیاسی شخصیات سے مطالبہ: سیاسی شخصیات معاشرے کو منشیات کی لعنت سے پاک کرنے کی خاطر منشیات فروشوں کی ضمانت کرنے سے گریز کریں۔ 

☆ تعلیمی اداروں سے مطالبہ: تعلیمی ادارے منشیات کے خلاف شعور اجاگر کرنے کےلیے واک کا اہتمام کیا جائے۔ 

☆ آئمہ مساجد سے مطالبہ: آئمہ مساجد قرآن و حدیث کی روشنی میں منبر سے لوگوں کو منشیات کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ 

اسی طرح ہم برہ درشخیلہ کے تمام مساجد یعنی بر چم مسجد، کوز چم مسجد، میلہ گاہ مسجد، بر پلو مسجد، منز پلو مسجد، کوز پلو مسجد، سپینہ خپہ مسجد، منڈؤں مسجد اور دیگر مساجد گئے، جہاں لوگوں کو اپنے مشن سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر سینکڑوں لوگوں نے ہمارے موقف کی تائید کرتے ہوئے ہمارے مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ کمیٹی ممبران نے خیرالحکیم وکیل حکیم زے، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمد سلیم خان، قومی وطن پارٹی کے رہنماء تل حیات خان، سماجی شخصیات ڈاکٹر جاوید، ایوب ہاشمی اور سید شاکر علی سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے بھی ہمیں بھر پور سپورٹ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ 

سنگر خان نے انٹرویو میں آگے کہا کہ ہمارے اس تحریک کو سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی اور یہی وجہ ہے کہ ایس پی اپر سوات اور ایس ایچ او مٹہ نے یہاں (برہ درشخیلہ) آکر کمیٹی ممبران کے ساتھ ملاقات کی اور ہمیں مکمل تعاون کی یقین دلائی۔ اس تحریک نے بہت ہی قلیل عرصے میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہے۔ کچھ منشیات فروشوں (جنہوں نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی اپیل کی ہے) نے کمیٹی ممبران اور پولیس کے سامنے حلف نامے دے کر توبہ کرلی ہیں، اور کچھ ابھی تک رابطے میں ہیں۔  

ہم اپنے مطالبات کو منوانے کےلیے اعلی حکومتی عہدیداروں کے علاوہ صوبائی وزیر صحت اور سیکرٹری ہیلتھ سے بھی ملاقات کرینگے، اور اس تحریک کو آگے مرحلہ وار تحصیل مٹہ کے ہر یونین کونسل اور پھر ضلع سوات کے کونے کونے  تک بڑھائیں گے، انشاءاللہ“

قارئین! کمال کی بات ہے، جوان ہی جوانوں کی اچھی صحت اور بہتر مستقبل کی سوچ میں مگن ہیں۔ ایک طرف جوانوں کو نشے کی لت پڑی ہے تو دوسری طرف ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شکل میں خدائی خدمت گاران ملک و قوم کے جوانوں کو نشے کی لعنت سے چھٹکارا دلا رہے ہیں۔ 
آفرین صد آفرین، ہمیں آپ پر ناز ہے اور ساتھ ہی یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا یہ جذبہ خیر دوسروں کےلیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ 
مل جل کے ارض پاک کو رشک چمن کریں 
کچھ کام  آپ کیجئے، کچھ  کام ہم  کریں 
                                         اختر حسین ابدالؔی