سکھوں کےلئے انتہائی اہمیت کے حامل مقام گوردوارہ ڈیرہ صاحب تک سکھ یاتریوں کی باآسانی رسائی کےلئے قائم کی گئی کرتارپور راہدرای کو باقاعدہ طور پر 09 نومبر کو کھول دیا گیا ہے ۔
تقریباً ایک سال کے قلیل عرصے میں تعمیر ہونے والی اس راہداری کا مقصد بھارت سے پاکستان کے ضلع نارووال میں کرتارپور کے مقام پر گوردوارہ ڈیرہ صاحب آنے والے سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے ۔
سکھ یاتریوں کی کرتارپور آمد جاری ہے ۔
یہ کرتارپور راہداری بابا گرونانک کے 550 ویں جنم دن کی تقریبات کے موقع پر کھولی گئئ اور ان تقریبات کا باقاعدہ آغاز منگل سے ہوئی ۔
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ منصوبہ خطے میں قیام امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کےلئے شروع کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر کے لیے فنڈز پاکستان نے خود فراہم کئے تھے ۔
پاکستان کی جانب سے قیام امن و ہم آہنگی کے جذبے کے پیش نظر بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کےلئے خصوصی مراعات کا بھی اعلان کیا گیا تھا ۔
وزیراعظم عمران خان نے یکم نومبر کو کرتارپور زیارت کےلئے آنے والوں کےلئے پاسپورٹ اور پاکستان آنے کےلئے 10 روز قبل اندراج کرانے کی شرائط ختم کرنے کا اعلان کیاتھا ۔
بعد ازاں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ بابا گرونانک کے 550ویں سالگرہ کے موقع پر حکومت پاکستان نے کرتار پور آنے والے سکھ یاتریوں کو خصوصی مراعات دیتے ہوئے ایک سال کےلیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے اور زائرین کی فہرست 10 روز قبل فراہم کرنے کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ20 ڈالر کی سروس فیس میں 9 تا 12 نومبر تک کےلئے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے ۔ تاہم بھارت نے سکھ یاتریوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ مراعات کو مسترد کر دیا تھا ۔
کرتارپور کہاں ہے اور سکھوں کے لیے اتنا اہم کیوں ۔۔۔۔؟
کرتارپور پاکستانی پنجاب کے ضلع نارووال میں شکر گڑھ کے علاقے میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے ۔ جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے 18 برس گزارے تھے ۔
کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ کا بھارتی سرحد سے فاصلہ تین سے چار کلومیٹر کا ہی ہے ۔
گوردوارہ میں روزانہ 5 ہزار سکھ یاتری آسکیں گے ۔
سکھ زائرین بھارت سے دوربین کے ذریعے ڈیرہ بابانک کی زیارت کرتے ہیں بابا گرونانک کی سالگرہ منانے کےلئے ہزاروں سکھ زائرین ہر سال بھارت سے پاکستان آتے ہیں ۔
پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات ڈیرہ صاحب لاہور ، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس کرتار پور ڈیرہ بابا نانک سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ہے ۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کرتارپور سرحد کھولنے کا معاملہ 1988 میں طے پاگیا تھا لیکن بعد ازاں دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کے باعث اس حوالے سے پیش رفت نہ ہوسکی ۔
سرحد بند ہونے کی وجہ سے ہر سال بابا گرونانک کے جنم دن کے موقع پر سکھ بھارتی سرحد کے قریب عبادت کرتے ہیں اور بہت سے زائرین دوربین کے ذریعے گردوارے کی زیارت بھی کرتے تھے ۔
کرتارپور راہداری کا منصوبہ کیسے شروع ہوا ۔۔۔۔؟
گزشتہ برس اگست میں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو ، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دعوت پر وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کےلئے پاکستان آئے تھے ۔
انہوں نے اس تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملے اور ان سے غیر رسمی گفتگو کی تھی ۔ اس حوالے سے سدھو نے بتایا تھا کہ جب ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان گرو نانک صاحب کے 550ویں جنم دن پر کرتارپور راہداری کھولنے سے متعلق سوچ رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ پاکستان آرمی کے سربراہ اس ایک جملے میں انہیں وہ سب کچھ دے گئے جیسا کہ انہیں کائنات میں سب کچھ مل گیا ہو ۔
کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد ۔
بعد ازاں 28 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے ضلع نارووال کے علاقے کرتارپور میں قائم گردوارا دربار صاحب کو بھارت کے شہر گورداس پور میں قائم ڈیرہ بابا نانک سے منسلک کرنے والی راہداری کا سنگِ بنیاد رکھ دیا تھا ۔ اس سنگ بنیاد کی تقریب میں سابق بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے ۔
کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد کے موقع پر نووجوت سنگھ سدھو بھی پاکستان آئے تھے ۔
پاکستان نے اس وقت کی بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم انہوں نے شرکت سے معذرت کرلی تھی ۔
کرتارپور کی تکمیل ۔
پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کی بروقت تکمیل کےلئے دن رات کام کیا گیا اور 20 اکتوبر کو یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم عمران خان 9 نومبر کو اس کا افتتاح کریں گے ۔ جس کے بعد 24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرتارپور راہداری کا منصوبہ فعال کرنے سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے اور 18 نکات پر مشتمل معاہدے کے تحت 5 ہزار سکھ یاتری ، انفرادی یا گروپ کی شکل میں یاتری پیدل یا سواری کے ذریعے صبح سے شام تک سال بھر ناروال میں کرتارپور آسکیں گے ، حکومت پاکستان یاتریوں کی سہولت کےلئے شناختی کارڈ جاری کرے گی اور ہر یاتری سے 20 ڈالر سروس فیس وصول کی جائے گی ، تاہم سرکاری تعطیلات اور کسی ہنگامی صورتحال میں یہ سہولت میسر نہیں ہوگی ۔
اس معاہدے کے بعد 3 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے خود کرتارپور راہداری کی تصاویر شیئر کی تھیں اور کہا تھا کہ کرتارپور سکھ یاتریوں کے خیر مقدم کیلئے کرتار پور پوری طرح تیار ہے ۔
سکھ یاتری پاکستان میں کیسے داخل ہوں گے ۔۔۔؟
تاہم پاکستان نے اس منصوبے پر کام جاری رکھا اور کرتارپور راہداری تقریباً ایک سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کی گئی ہے ۔
یہ ایک ویزا فری کوریڈور ہے اور جس کے ذریعے بھارت سے آنے والے سکھ یاتری صبح گوردوارہ دربار صاحب آکر اسی شام کو واپس چلے جایا کریں گے ۔
کرتارپور راہداری کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس راستے سے روزانہ بھارت سے 5 ہزار سکھ یاتریوں کو آنے کی اجازت ہوگی ۔
بارڈر ٹرمینل میں سکھ یاتریوں کی سہولت کےلئے تقریباً 130 کاؤنٹر بنائے گئے ہیں ، جہاں ان کے پاسپورٹ شناخت یا پرمٹ کی سکینگ اور بائیو میٹرک تصدیق کی جائے گی ۔جبکہ سکھ یاتریوں سے بابا گرونانک کے 55ویں جنم دن کی تقریبات کے بعد سے 20 ڈالر فی کس سروس چارجز وصول کئے جائیں گے ۔
امیگریشن کے بعد یاتری شٹل بسوں میں تقریباً ساڑھے 4 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے گردوارہ دربار صاحب پہنچیں گے جبکہ کرتارپور راہداری سے آنے والے یاتری ایک مخصوص دروازے سے گردوارہ دربار صاحب میں داخل ہوں گے ۔
یاتریوں کو گوردوارہ دربار صاحب کےعلاوہ پاکستانی حدود میں کہیں بھی داخلے کی اجازت نہیں ہوگی ، اس مقصد کےلئے کرتارپور راہداری اور گوردوارہ دربار صاحب تک سڑک کی دونوں جانب اونچے جنگلے اور خاردار تاریں لگادی گئی ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں