جمعہ، 22 نومبر، 2019

بچے ، لوک رسوم اور سماجی تفریق



اگر ہم کسی علاقے کی ثقافت کو خیمہ تصور کریں تو خیمے کے رکھوالے کو ضرور سماجی بندھنوں کا استاد مانیں گے ، کیوں کہ وہ روایات اور ثقافت کی طنابیں کھینچنے میں رواج کا بھر پور زور لگاتا ہے ۔ جبھی تو اس خیام کو اپنا خیمہ پیارا لگتا ہے ، خواہ اس میں سماجی تفریق کیوں نہ ہوں ۔

انسانی وجود کا عالم خاک میں ظہور کیا ہوا کہ سماجی سمبندھوں کی ایسی لڑی بندھتی گئی کہ جس میں منتشر افراد ایک ہی معاشرتی سلسلے سے منسلک ہوگئے ۔ جسے ریت و رسم کی ریشوں سے بنی ڈوری نے ثقافتی اقدار سے مزید استوار کیا ۔ رسومات کا سلسلہ بچے کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے ۔ مثلا ہندوستان جو رسومات کا گڑھ ہے ، وہاں ایک ہندوارہ رسم " چاب " مشہور ہے ۔ جس میں بچہ پیدا ہونے پر عزیز و اقارب کی عورتیں گانا گاتی پوتڑے ( شیر خوار بچوں کی رانوں میں باندھنے کا تکونا کپڑا جو پیشاب یا پاخانے کے بعد تبدیل کیا جاسکتا ہے ) ، لے کر آتی ہیں ۔ لیکن ہمارا موضوع پشتون بچوں سے متعلق ہیں ۔ یہاں بچے کی پیدائش کی خبر دینے بچے کے رشتہ داروں کے پاس نائی جاتا ، دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر ڈمامہ بجاتا اور بچے کی پیدائش کا اعلان کرتا ۔ لوگ حسب توفیق روپے دیتے ۔ رشتہ دار مبارک باد دینے جاتے ۔ کچھ نقدی کی چراغی مزاروں پر چڑھائی جاتی ۔ ننھیال والے تحفے تحائف ، کپڑے ، دیسی گھی ، مرغ اور کان ڈھکنے والے ٹوپی جس پر سونے کا ٹیکا لگتا ، وغیرہ پہنچاتے ۔ گھر میں ایک قسم کا جشن ہوتا ۔ ادھر بچہ جننے والی ماں کی قدر دانی بھی ہوتی ۔ خواتین اس کی انگلی میں تار باندھتیں تاکہ وہ ان کی خاطر اچھا خواب دیکھ سکیں ۔ 

قارئین ! آپ کو معلوم ہے ، بچہ چسر چسر کرکے چوچی پیتا ہے ۔ بہتر کفالت کی بدولت اس کا جھپٹنا ہمہ وقت تغیر پذیر رہتا ہے ۔ ہر چند بچہ " اوڑھنی اور سیزنی " میں بندھا رہتا ہے اس کے اعضاء میں طاقت آنا ایک فطری عمل ہے ۔ اسے چسنی سے پیلایا جاتا ہے ۔ وہ لیٹے لیٹے ہاتھ پاؤں مارتا ہے ۔ جب پشت کے بل لیٹنے سے اکتا جاتا ہے تو کروٹ بدلتا ہے ۔ بچہ گر نہ جائے اس لئے ماں اسے کھٹولے پر سلاتی ہے ۔ وہ کام میں مشغول رہتی ہے مگر بچے کو اپنی نگرانی میں رکھتی ہے ۔ کھبی پاس آکر بچے سے لبھانے والی باتیں شروع کرتی ہے ۔ایسے میں وہ بچے کے چوچلے باز ہونے پر نثار ہوجاتی ہے ۔ وہ صرف چچو کار یعنی سے آواز نہیں نکالتی بلکہ فرط محبت سے بوسے بازی بھی کرتی ہے ، اور انگلیاں بھی چٹخاتی ہے ۔

 الغرض وہ بچے کو گود میں اٹھاتی ہیں ، ہاتھوں میں اچھالتی ہے ، اور کھبی کھبار تو اپنی پیٹھ کی سواری بھی کراتی ہے ۔ پروردگار ! ماں کو کش قدر سر چشمہ بنایا ہے ۔ جھبی تو یہ کہاوت مشہور ہے ۔ " بچے کی ماں ، بوڑھے کی جورو سلامت رہے "۔ لیکن ماں بے چاری ہروقت بچے کے پاس نہیں رہ سکتی ، کیوں کہ اسے گھر بار کا کام کرنا ہوتا ہے ۔ اسی اثنا میں بچہ ادھر ادھر کھیلتا رہتا ہے ۔ نئی پود کا کمزور بدن آرام اور نیند کو مائل رہتا ہے ۔ اس لئے تھک کر رونے لگتا ہے ۔ آخر ماں ، ماں ہوتی ہے فورا پاس آکر بولتی ہے :

تور  دے  بچے  تور  دے 
د مور نہ ئی زڑہ تور دے 
لرے       لرے        گرزی  
بچے بیا د خپلے مور دے 

کہتے ہیں ، جھولا بچے کی دوسری ماں ہے ۔ اس لئے اکثر بچے جھولے میں سوتے رہتے ہیں ۔ شاید پشتو کی یہ شعر ماں کے دل کی آواز ہے ۔ 

پہ دے خوارہ جونگڑہ کے گوڈئی شتہ نہ زانگو شتہ 
زما      سرہ      بچیا     یوہ      تشہ     الاہو     شتہ 

جب بچہ بچکانہ حرکتیں اور طفلانہ باتیں شروع کرتا ہے ۔ اس وقت جب کوئی بندہ سیٹی بجاتا ہے تو یہ چونک جاتا ہے ۔ ایسے میں ماں پاس آکر کہتی ہے ۔ 

چاچئی وہلے نہ شی 
ککوڑے بہ ور نکڑمہ

اس کے بعد چند روز میں وہ قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ چارپائی کے سہارے کھڑا ہوجاتا ہے ۔ پھر چارپائی پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ پیر ہلاتا ہے ، اور چلنے کا مشق شروع کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ کسی چیز کا سہارا لیے بغیر قدم اٹھاتا ہے ۔ اسے لمحے ماں آکر کہتی ہے ۔ 

پاپلے      پاپلے      پل      واخلہ 
پل دی بختور شہ پسے بل واخلہ 

گھر والے روغنی ٹکیہ پکاتے ، ایک دو بچے کے پیروں میں چلاتے باقی اڑوس پڑوس میں تقسیم کیے جاتے ۔ 

اس موقع پر مغلوں کا رواج ہم سے مختلف تھا ۔ بچہ جب چلنے لگتا ، تو خاندان کا بزرگ اسے پگڑی سے نشانہ بناکر مارتا ۔ جلال الدین اکبر کہتے ہیں " مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب چچا جان نے مجھے دستار سے تاڑ کر مارا تھا " ( دربار اکبری ) اس کے بعد ختنے کا رسم شروع ہوتا ۔ عام طور پر بڑے لڑکوں کا ختنہ کیا جاتا تھا ۔ بچے کے ختنے پر جشن کا سماں رہتا تھا ۔ جانور ذبح کیا جاتا ، دوست احباب اور رشتہ دار مبارک باد دینے آتے تھے ۔ گھر میں خواتین ناچتیں جبکہ حجرے میں بھی ناچ گانے کا بندوبست کیا جاتا تھا ۔ وکیل حکیم زے صاحب کہتے ہیں " نائی کو کپڑا ، پیالہ ، سلور ، بستر ، تکیہ اور رضائی وغیرہ سامان پیسوں سمیت مل جاتا تھا "۔ بچے کو بھی میوہ کے ساتھ ساتھ روپیوں کے ہار پہنائے جاتے تھے ۔ محولہ بالا تمام رسمیں لڑکوں سے متعلق تھی ۔ راقم الحروف کے بچپن میں اگرچہ یہ رسمیں موجود تھیں لیکن بوجوہ وہ اس سے محروم رہے ۔ ایک تو وہ باپ کا ساتواں بیٹا تھا جسے نظر بد سے بچانے کی خاطر داری نے دو سال تک دوسرے لوگوں کو نہ دکھایا ۔ دوم وہ ہٹا کٹا تھا اس لئے انہیں لڑکا ہونے ظاہر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ جب ختنے کا عمل بھی خاموشی سے طے ہوا تو برسوں تک ماں کو ملال رہتا تھا ۔پدر سری معاشروں میں ایسی رسمیں لڑکوں کے گرد گھومتی ہے کیوں کہ لڑکیوں کی پرورش ایسے ماحول میں ہوجاتی ہے جہاں وہ مستقبل سماجی تفریق کا شکار رہتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی روایتی سلوک کی حقدار ، بھائی کے کھانے پینے سے جلنے والی اور خاندانی عزت و ناموس کی آمین سمجھی جاتی ہے ۔ جبکہ لڑکا ساری توجہ کا مرکز ، عظیم الشان مخلوق اور شیر شاہ سوری کا بیٹا سمجھا جاتا ہے ۔ 

کشور ناہید کی کتاب میں ڈاکٹر صبیحہ  حفیظ کا مقالہ بعنوان " لوریاں ، لوک رسوم اور سماجی تفریق " میں لکھتی ہے ۔ " 86 لوریوں میں سے 65 میں صرف لڑکوں کا حوالہ ہے ،  17 میں کسی جنسی کا ذکر نہیں ہے "۔ ظاہر یہ صرف چار لوریاں لڑکیوں سے متعلق ہیں اور سب اس لئے ہیں کہ لڑکوں کے خواب جاگیردارانہ اور معاشرے کے خواب ہیں ۔

                                  تحریر : ساجد ابو تلتان صاحب 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں