مطالعہ پاکستان کا بطورِ مضمون آغاز بڑے جوش و خروش سے ہوا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان دولخت ہوئے ، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا ۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پس منظر میں نئے پاکستان کی تعمیر کی خاطر ایسے مضمون کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو باقی پاکستان میں مرکز گریز رُجحانات کی نشاندہی کرے اور ان کے پنپنے سے پہلے ہی ان کا سدباب کرے ۔
قومی یکجہتی کا غیر محسوس طور پر فروغ اور نظریہ پاکستان کی تلاش اور ترویج اس مضمون کے بنیادی نصب العین تھے ، اور ہیں یا ہونا چاہئے ۔ ایسے میں قائداعظم یونیورسٹی میں مطالعہ پاکستان میں ایم ایس سی کا اجرا ایک نیک فال تھی ۔
مطالعہ پاکستان یا پاکستانیت کا تصور علاقائی مطالعے کا بھی ہے جس میں جغرافیائی اعتبار سے کسی ایک خطہ ارضی کی تاریخ ، سیاست ، معیشت ، سماج ، لسانیات ، ادب ، خارجہ پالیسی ، جغرافیائی خدوخال ، مذہبی عقائد اور ثقافتی عوامل پر ایک ساتھ توجہ دی جاتی ہے ۔
پاکستان کی مخصوص حیثیت کی وجہ سے پاکستانی قومیت کی جڑوں کی تلاش اور واضح شناخت کے ادراک کو بھی اس مضمون میں بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔
اس مضمون کو بڑے ذوق و شوق سے ابتدائی ، ثانوی ، اعلیٰ ثانوی اور ڈگری سطح کی جماعتوں تک لازمی انہی اہم مقاصد کے حصول کےلئے کیا گیا تھا ۔ لیکن افسوس ہے کہ اس مضمون کی روح کو اور اس کے ارفع نصب العین کو سمجھا ہی نہیں گیا ۔
اس مضمون کی کم نصیبی یوں اور بھی بڑھی کہ مطالعہ پاکستان میں ایم ایس سی کو ایک مضمون میں تخصیصی ایم ایس سی کی بجائے کثیر المضامین کہا گیا تاکہ ایم ایس سی پاکستانیت ان کی جگہ نہ لے سکے ۔
ایک اور ظلم سرکاری جامعات نے مطالعہ پاکستان پر یہ کیا کہ اپنے شعبہ تاریخ کا نام شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان رکھ دیا ۔ لیکن اس کے ذیلی مضامین میں کوئی اضافہ یا تبدیلی نہ کی۔ بس تحریک پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کی رواں سیاسی تاریخ پر مضامین ہی کو کافی سمجھا گیا جو پہل ہی سے پڑھائے جا رہے تھے ۔
پاکستانی جامعات کے مطالعہ پاکستان کے شعبہ جات کے ساتھ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا اشتراک عمل بہت ضروری ہے ۔ خاص طور پر قائداعظم یونیورسٹی کے تحت مطالعہ پاکستان کے قومی ادارے کے ساتھ مسلسل روابط سے ٹرسٹ اور اس ادارے کے مقاصد کے حصول میں آسانی ہو گی اور مطالعہ پاکستان کے مضمون کی درست تفہیم کے ساتھ صحیح تدریس کی منزل قریب آئے گی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں