تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھنا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مترادف ہے مگر جب جذبے جوان ، ہمت مرداں اور مدد خدا ہو تو پھر ناممکن کو ممکن بنانا کوئی عجب فعل نہیں ہے ۔ بے شک اس سلسلے میں تنقید ایک مشکل فن ہے اگر تخلیق کار سے ہمدردی پیدا ہوئی تو مدح اور اگر اس کے برعکس تو تنقیص ۔ لہذا اس میدان میں احتیاط کا دامن ہر وقت تھامنا نہایت ضروری ہے تا کہ معیاری و غیر معیاری مواد کی نشاندہی ہوجائے ۔ بحیثیت ادارہ ہذا کی طالبعلم میرے لئے " مجلہ ماندور " پر تبصرہ کرنا کافی دقیق امر ہے لیکن پھر بھی مجھ ناتواں نے یہ بوجھ اپنی کندھوں پر اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔
ذاتی مصروفیات کی وجہ سے اس بہترین میگزین میں حصہ لینے کا موقع تو میں گنوا چکا ہوں جو باعث حسرت ہے مگر یہ اچھا ہوا کہ گراں قدر پروفیسر رشید احمد صاحب نے مجھے کالم لکھنے کے لئے تشویق کیا جس سے میرے اس رسالے میں شامل ہو نے کی تمنا کچھ حد تک پوری ہوئی ۔
قارئین ! ضلع سوات کے تعلیمی اداروں میں علمی و ادبی مجلوں کا آغاز گورنمنٹ جہانزیب کالج سے ہوا جنہوں نے ابتدا ہی سے سال بہ سال اپنے رسائل شائع کیے ۔اسی طرح گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ نے بھی سال 2001 سے باقاعدہ اپنے سالانہ رسالے کا ابتدا کیا ۔ یاد رہے کہ سرکاری کالجوں کے علاوہ کچھ پرائیویٹ کالجز بھی اپنے سالانہ میگزین شائع کررہے ہیں جن میں ایک معتبر حوالہ ابدالی ایجوکیشن سسٹم کا ( گلدستہ ابدالی ) ہے جس نے قلیل مدت میں ہر لحاظ سے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے ۔
اب آتے ہیں " مجلہ ماندور " کی طرف ، یہ گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ کا سالانہ علمی و ادبی مجلہ ہے لیکن اس بار 2 سال کی طویل عرصہ بعد شائع ہوئی جس کا ذکر مدیر شعبہ اردو پروفیسر نورالاحد صاحب نے اپنی تحریر میں مجھ یوں کیا ہے کہ " ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہے کہ(مجلہ ماندور ) کی اس تازہ اشاعت میں تاخیر کا سلسلہ کچھ دراز ہوگیا ، مگر بقول غالب :
ع ۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا ۔
یہ مجلہ بہترین مواد ، خوبصورت رقیق کاغذ اور پُرکشش سج دھج کی وجہ سے جداگانہ انفرادیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی اعلیٰ و معیاری مجلے کے پیچھے ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پروفیسر محمد الیاس ہو یا پروفیسر محمد امین ، پروفیسر رشید احمد ہو یا پروفیسر نورالاحد ، پروفیسر سبحانی جوہر ہو یا لیکچرار احسان یوسفزئی ، ایسی ٹیم ہو تو معیار میں مزید نکھار آتا ہے ۔ یہ سبھی اپنی اپنی جگہ تعمیری کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں ایسے معیاری پرچے اور مجلے طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشنے ، ان کی چاہت پورا کرنے اور ان کی ہچکچاہٹ دور کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ بقول تصدیق اقبال بابو کہ " مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اخبار میں بچوں کے صفحے کی تحریریں پڑھ کر جذبہ بیدار ہوا کہ ان سے تو میں اچھی تحریر لکھ سکتا ہوں ۔ جھٹ سے ایک کہانی لکھی اور بذریعہ ڈاک بھیج دی ہر ہفتے اخبار چھان مارتا لیکن کہانی نہ چھپی ، جس کا مجھے آج تک افسوس ہے ۔ خوش قسمت ہیں آج کے بچے جنہیں زمانہ طالب علمی ہی میں لکھنے لکھانے کے مواقع مل رہے ہیں ، جو ہم نصابی سرگرمیوں کا اِک خاص حصہ ہیں " ۔
" مجلہ ماندور " کے موجودہ شمارے کی تمام تحریریں ہی لاجواب ہیں لیکن پروفیسر نورالاحد صاحب کی "فن اور فنکار ۔۔۔ ایک نقطہ نظر " ، پروفیسر رشید احمد صاحب کی " دہ فریب جہان " ، پروفیسر مفتی انعام اللہ صاحب کی " اسلامی معاشرہ میں نکاح کی اہمیت " ، پروفیسر سبحانی جوہر صاحب کی " دہ ھمایون مسعود دہ افسانوں کتاب ( رشتے) پر تبصرہ " ، اور لیکچرار احسان یوسفزئی کی " سندریز احساسات دہ اخلاقیاتوں خزانہ" اچھی تحریریں ہیں۔
جب کہ طلبہ کی تحریروں میں محمد فواد خان کی تحریر " جدید علوم انگریزی زبان میں ہی کیوں؟ " ، حسن شاہ کی تحریر " امن " اور نظام الدین کی تحریر " وقت کی قدر " خاصے کی تحاریر ہیں ۔ اس کے علاوہ خالد اکاش ، عباس خان درمان اور حیات اللہ کی تحریریں بھی قابل ستائش ہیں ۔
نیز انعامات اور پروفیسرز کی یادگار تصاویر اس پہ فاضل ہیں ۔ طوالت کے خوف سے میں نے فقط اردو اور پشتو کے حصوں سے صرف نظر کیا ہے ۔
اس مجلے میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں البتہ اِملا اور گرامر کی ایک آدھ کوتاہی مجلے میں نظر آتی ہیں جو مجلے کے مجموعی تاثُر کو چنداں نقصان نہیں پہنچتا سکتا ۔
امید ہے یہ مجلہ مستقبل میں اسی طرح نوجوانوں کے خیالات و افکار کی سرپرستی کرے گا اور ساتھ ہی موضوعات کی وسعت اور علاقائی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرے گا ۔
تحریر: اختر حسین ابدالی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں