اتوار، 12 مئی، 2019

نصاب تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت




     "پڑھ اپنے رب کا نام لے کر جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا رب بہت کریم ہے جس نے آدم کو قلم سے علم سکھایا ، جو وہ جانتا نہ تھا " ۔ ( العلق 5۔1 )
   
        یہ تو ہمارے قرآن کریم کی مقدس آیات ہیں جس میں انسانیت کے سامنے تعلیم کی اہمیت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے تڑپ پیدا کرنے کےلئے یہ حدیث مبارکہ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ 
   "تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان ( مرد و عورت ) پر فرض ہے"۔
    
     آیات اور حدیث کی روشنی میں ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ اسلام تعلیم کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ یہ اشیاءکا علم ہی ہے جو انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرتا ہے اور دوسروں پر اسے برتری دلاتا ہے۔ اسلام میں تعلیم کی اہمیت بہت ہی لازمی قرار دی جاتی ہے اور تعلیم کے ساتھ عقیدے کی اہمیت پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ عقیدے سے انسان کی اخلاقی و روحانی ترقی ہوتی ہے اور علم سے دینوی ترقی ہوتی ہے۔ علم بطور طاقت بھی انسانی خیالات اور عمل کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھے کام کےلئے اچھی سوچ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ علم کے بغیر شعور ، ایمان کی پختگی اور نیکی کا تصوّر ہی ممکن نہیں ہے۔ علم اچھائی اور نیکی کی اوّلین شرط ہے۔ 
   
     تعلیم عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا لغوی معنیٰ سکھانا، بتانا ، ہدایت اور تربیت کے ہیں۔ تعلیم کسی بھی معاشرے کےلئے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسانی معاشرے میں شائستگی ناممکن ہے۔  یہی وہ امربدیہی ہے جو کہ انسانی وجود کے ساتھ لازمی قرار دی گئی ہے۔ 
  
     نصاب تعلیم وہ تدریسی اور تربیتی ڈھانچہ ہے جس کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے تعلیمی ادارے نئی نسل کو ذہنی، فکری، علمی اور عملی طور پر تیار کرتے ہیں۔نصاب تعلیم کا انحصار ریاست کی قومی تعلیمی پالیسی پر ہوتا ہے، جس میں مستقبل کے اہداف، معیارات اور اندورنی و بیرونی تغیرات کا ادراک اور تعین کیا جاتا ہے۔ وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تبدیلیوں اور تغیرات سے گزرتے ہیں، وہیں نصاب تعلیم قومی اہداف سے مشروط ہوتی ہے اور تعلیمی نظام کی فعالیت اور ضروری ترامیم و اضافے کیوجہ سے تعلیمی اہداف ، معیارات اور زاویے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
   
    قارئین ! شمالی کوریا نے جب 1945 میں جاپان سے آزادی حاصل کی تو انہوں نے آئین بنانے سے پہلے تعلیم کےلئے 20 سالہ منصوبہ بندی کا آغاز کیا جس کا نتیجہ ساری دنیا نے دیکھا کہ شمالی کوریا کہا سے کہا پہنچ گیا اور ایک طرف ہم ہیں کہ ایوب خان جب 1965 میں وفاقی کابینہ تشکیل دے رہے تھے تو میٹنگ ختم ہونے کے بعد پتا چلا کہ تعلیم کی وزارت تو ہم بھول چکے ہے جو بعد میں خانہ پوری کے طور پرمشرقی پاکستان
 ( بنگلہ دیش ) کی ایک ضعیف العمر شخص قاضی انور الحق کو تفویض کردیا گیا۔ 
     
      پاکستان کے نظام تعلیم میں گو کہ مختلف ادوار گزرے، ایوب خان،جنرل ضیاءالحق اور نواز شریف کے دور میں تبدیلیاں ضرور لائی گئیں، لیکن یہ تبدیلیاں حقیقت پسندی کا مظہر ہونے کے بجائے فکری چنگل کے زیر اثر زیادہ رہی ہیں جس کی وجہ سے نظام تعلیم معاشرے پر خاطر خواہ مثبت اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہا اورقیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہم وقت کے فطری بدلتے تقاضوں کے مطابق اپنےنظام تعلیم کو ہم آہنگ نہیں کر پائے۔میاں نواز شریف نے اپنے دونوں ادوار میں تعلیمی پالیسیاں دیں اوربعض ٹھوس اقدامات بھی کیے لیکن کچھ زیادہ قابل رشک کام نہ کرسکے۔ 
      پرویز مشرف نے جب ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق بنانے اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے چند ترقی پسند ماہرین تعلیم سے رابطہ کیا۔جنرل مشرف اپنی تعلیم دوست سوچ کی بدولت ملک کو ”نالج اکانومی“ میں بدلنے کے خواہاں تھے۔ مگر بیوروکریسی نے ان کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔گو کہ بعض سطحوں پر خوشگوار تبدیلیاں آئیں لیکن نفرت انگیز مواد بدستور نصاب کا حصہ رہا۔
  
      جمہوریت اور آمریت اپنی جگہ لیکن مشرف دور میں تعلیم کے شعبے میں انقلابی منصوبوں سے کوئی بھی ذی شعور پاکستانی چنداں انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرف کے تعلیمی اقدامات ستر برس کی تاریخ میں نمایاں تھے۔ان کے دور حکومت میں جو تعلیمی منصوبے بنائے گئے، ان کی بناءپر پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کو عالمی سطح پر پہچان ملی۔مشرف کے جانے کے بعد عوام کے منتخب نمائندے مشرف کی تعلیمی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے میدان، ترقی، ٹیکنالوجی اور تحقیق میں انقلاب تو درکنار کچھ کرنے کی حامی بھی نہ بھر سکے۔
      مشرف کے تعلیم دوست پالیسی کی بدولت نہ صرف تعلیمی نظام میں کئی گنا بہتری آئی بلکہ پہلی بار باقاعدہ طور پر یونیورسٹیوں کے لیے ریسرچ گرانٹس، ڈیجیٹل لائبریریوں کا قیام اور پانچ ہزار سے زائد افراد کو غیر ملکی جامعات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ مشرف کے دور میں ہی پاکستان میں پانچ بڑے تحقیقی ادارے اور عالمی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹیاں بنائی گئیں۔ یہ بات درست ہے کہ انہوں نے افغانستان سمیت دیگرمحاذوں اور بین الاقوامی سطح پر کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن قوم کوا نکی بنیادی ضرورت ”تعلیم “کی خوشبو سے روشناس ضرور کراگئے۔ 

        پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ جہاں صاحب بصیرت سیاستدانوں کے فقدان کے باعث مختلف ریاستی پالیسیوں پر بیوروکریسی حاوی ہوتی چلی گئی ہے، وہیں تعلیم کے شعبے میں اہل ماہرین تعلیم کی عدم موجودگی کے باعث تعلیمی پالیسیوں کی تشکیل پر بھی روز اول سے بیوروکریسی ہی حاوی چلی آرہی ہے۔ ملک میں بے ڈھنگی اور من مانی سکول و مدرسہ تعلیم نے جہاں انگریز کی غلامانہ سوچ، فکری و ذہنی تنگ نظری کو فروغ دیا ہے وہاں تعصب و لسانیت کو بھی جنم دیا ہے۔طبقاتی نظام تعلیم احساس کمتری و محرومی کا سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک بچہ مشنری سکول میں جاتا ہے اور اپنی پوری تعلیی کیرئیر میں کوئی فضول سبجیکٹ نہیں پڑھتا بلکہ اس نے جو بننا ہوتا ہے وہ اسی سے متعلق پڑھتاہے جبکہ دوسری طرف لوئر کلاس اور میڈل کلاس بچہ ساری زندگی اپنی منزل کو سیدھا کرنے میں گزار دیتا ہے۔
  
      انٹرنیشنل رول کی مطابق کسی بھی ملک کو
 ( ریوائیول آف ایجوکیشن ) کےلئے اپنی " جی ڈی پی " کی کم از کم 05 فیصد تعلیم پر صرف کرنا ہوتا ہے۔ بعض ترقی یافتہ ممالک میں(GDP) کی 20 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے ، جبکہ وطن عزیز پاکستان میں صرف اور صرف " جی ڈی پی " کا 02 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے ، جو انٹر نیشنل پوائنٹ آف ریوائیول سے کہیں کم ہے ۔ 

        مملکت خداداد میں اساتذہ سے ماسوائے تعلیم ہر کام لیا جاتا ہے۔ جیسے پولیوں کمپئین میں اساتذہ کی ڈیوٹی لگوانا ، الیکشن میں اساتذہ کو تعینات کرنا وغیرہ۔ 
   
      اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قومی ادارہ برائے نصاب و نصابی کتب اورنصاب سازی کو پھر سے اپنے پاوں پر کھڑا کرے اور ایسی نصاب سازی کرے جو وقت کے تقاضوں پر پورا اترے۔ نظام تعلیم میں بیوروکریسی کا کردار ختم کر کے اسے کسی تھنک ٹینک برائے تعلیم کے حوالے کیا جائے۔تعلیمی پالیسی کو اہداف کی تکمیل اور عصری ضروریا ت کے پیش نظر بنایا جائے۔ مذہبی تنگ نظری ،فرقہ وارانہ تعصب ، مدر پدر آزاد اور مذہب و اخلاقیات سے متنفر کرنے والے نصاب کو دینی و عصری درسگاہوں سے ہٹایا جائے۔ طبقاتی نظام تعلیم کی بیخ کنی کی جائے کہ کہیں یہ اتنی نہ بڑھ جائے کہ دیر ہو جائے۔ لیپ ٹاپ سکیم کے بجائے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بہتر بنا کر اساتذہ کی تربیت پر توجہ دی جائے۔ پبلک و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے مشترکہ پالیسی بنا کر نصاب تعلیم، اساتذہ کی تربیت اوراساتذہ کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ ہر سال قومی تعلیمی مردم شماری کا اہتمام کیا جائے۔ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کر کے موجودہ نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25/A کی رو سے تعلیم حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ تا ہم مہنگائی اور غربت کی وجہ سے یہ سہولت لاکھوں لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر ہر تعلیمی ادارے میں کچھ سیٹیں ایسے غریب اور ذہین لوگوں کےلئے مختص کردی جائیں جو فیس افورڈ نہیں کر سکتے تو اس سے نہ صرف یہ لوگ تعلیم کی زیور سے آراستہ ہوجائینگے بلکہ ملک کی خواندگی کی شرح کو بھی کافی حد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ تیز رفتار دنیا کے ساتھ چلنے کےلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کےلئے ہمیں اپنے رویوں کو بھی تبدیل کرنا ہوگا اور تعلیم غریب طبقے تک عام ہوگی تاکہ وطن عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ 
   
     تعلیمی نظام کے بگاڑ اور تباہی کی تمام تر ذمہ داری ریاستی مقتدر اشرافیہ اور مذہبی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو نصاب تعلیم میں مثبت تبدیلیوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یو این ، فافن، پلڈاٹ اور دوسرے سروے کرنے والے اداروں کی ہوش ربارپورٹس تو گاہے بگاہے ہمارے تعلیمی سسٹم کا پردہ چاک کرتی رہتی ہیں لیکن فرق تب پڑے گا جب احکام بالا کو بھی تعلیم کی اہمیت کا احساس ہو۔اگر حکومت وقت چاہیے تو یہ تعلیمی نظام کو اپ ٹو دی مارک کر سکتی ہے کیونکہ اسکے تعلقات بیوروکریسی میں بھی ہیں اور دینی مدارس کے علماءسے بھی ۔ 
        
                                        تحریر  : اختر حسین ابدالی 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں