یہ عاصمہ کی تصاویر ہیں جو کہ بمشکل اٹھارہ سال کی تھی ۔ اپنے گھر اور بھائی کی کالج کی فیس ادا کرنے کے لیے لارئیٹ گروپ آف سکولز ملتان میں سات ہزار روپے پر نوکری کر رہی تھی ۔ حادثے والے دن کسی بات پر سکول پرنسپل یا میڈیم نرگس نے عاصمہ کو دو دفعہ دھمکی دی کہ اس کو سکول سے نکال دیا جائے گا ۔
اس نے روتے ہوئے اپنے کولیگز سے بات کی جنہوں نے مشورہ دیا کہ چیف ایگزیکٹو خالد جاوید وڑائچ جو کہ جنوبی پنجاب کے پی ٹی آئی کے عہدے دار بھی ہیں اُن سے بات کی جائے ۔
اسی دن انگلش سپیکنگ سیشن میں نرگس صاحبہ نے عاصمہ کو آرڈر دیا کہ پہلی پریزینٹیشن وہی دے گی ۔ جس پر عاصمہ نے کہا اس کی طبیعت ناساز ہے ۔ مگر اس کی ایک نا سُنی گئی اور اس کو مجبور کیا گیا کہ وہ پریزینٹیشن دے ۔
صبح کے واقعات سے پریشان یہ غریب گھر کی لڑکی جب پوڈیم پر پہنچی تو دو الفاظ بھی ادا نا کرسکیں ۔ لو بلڈ پریشر کہہ لیں نروس بریک ڈاؤن کہہ لیں عاصمہ بے ہوش ہو کر گری اور اس کا سر کرسی سے ٹکرا گیا ۔ وہ بےہوش تو پہلے ہی ہوگئی تھی اب سر سے خون بھی بہنے لگا ۔
اب ایسے حالات میں کوئی بھی انسان ایمبولینس کو کال کرتا ۔ مگر اس ڈائن نما عورت یا عورت نما ڈائن سکول پرنسپل نرگس نے ایمبولینس بلانے والوں کو منع کر دیا کہ اس سے سکول کی ریپوٹیشن پر فرق پڑے گا ۔
دوسرے اساتذہ نے چیف ایگزیکٹو خالد کی گاڑی استعمال کرنے کی تجویز دی تو اس کو شائد اپنی گاڑی کسی کی زندگی سے بھی پیاری تھی اور اس نے بھی منع کر دیا ۔
پھر لوگ رکشے میں ایک ہسپتال لے کر گئے جہاں ڈاکٹرز نے منع کردیا کہ ہم اس "کیس" کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ پھر وہ بیچارے رکشے میں ہی عاصمہ کو جس کے سر سے ابھی تک خون بہہ رہا تھا نشتر لے گئے مگر بہت دیر ہوچکی تھی ۔اور عاصمہ نے جرم غریبی کی سزا اپنی جان دے کر ادا کردی.
یہ ایک سمپل فرسٹ ایڈ کا کیس تھا ۔ صرف عاصمہ کو وقت پر فرسٹ ایڈ مل جاتی تو وہ بچ سکتی تھی ۔
مگر اس لارئیٹ گروپ آف سکولز کی ریپوٹیشن ایک جان سے زیادہ قیمتی تھی ۔ ایک غریب جان سے شائد واقعی قیمتی تھی اور اس بھڑوے چیف ایگزیکٹو خالد جاوید وڑائچ کی گاڑی سے لازمی طور پر کم قیمتی تھی ۔
عاصمہ کے لیے آواز اٹھائیں انسانیت کی ایک چھوٹی سے بھی رمک ہے آپ میں تو اس پوسٹ کو کاپی پیسٹ کریں اپنی والز پر اور ان تصاویر کو بھی شئیر کریں ۔
شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں