مسجد قاسم علی خان کی بنیاد1842ء میں اس وقت رکھی گئ جب پشاور سکھوں کے نرغے میں تھا ـ کسی زمانے میں مولانا عبدالرحیم پوپلزئی افغانستان کے پہلے رسمی بادشاہ احمدشاہ ابدالی کیطرف سے پشاور کے قاضی تھے۔عبدالرحیم پوپلزئی کا خاندان ایک تابناک تاریخ رکھتا ہے ـ
پوپلزئی خاندان کو پشتون قوم میں اس وقت بھی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے ـ
عبدالرحیم پوپلزئی کی وفات کے بعد ان کی جگہ عبدالحکیم پوپلزئی نے سنبھالی اور اس وقت کی مشہور تحریک( تحریک خلافت ) میں بھی حصہ لیا ۔ بعد میں عبدالحکیم پوپلزئی خلافت کمیٹی کے سربراہ اور مسجد قاسم علی خان کے خطیب بھی رہے ـ
پھر عبدالحکیم پوپلزئی کی وفات کےبعد مفتی عبدالرحیم پوپلزئی جن کا نام ان کے دادا کے نام پہ رکھا گیا تھا وہ سامنے آئے ـ وہ بچپن سے ہی تحریک خلافت سے وابستہ رہے۔
عبدالرحیم ثانی نے فرنگی استعمار کے خلاف تحریک آزادی کی حمایت کی اور خود بھی اس تحریک میں شامل رہے
اور تحریک آزادی کے حوالے سے سرفروش نامی ایک رسالہ بھی جاری کیا ـ
جب قصہ خوانی بازار میں پشتونوں کا قتل عام ہوا اس وقت احتجاج میں بھی شامل رہے جسکی وجہ سے انہیں نوسال قید کاٹنا پڑی ـ
عبدالرحیم پوپلزئی ثانی سرمایہ دارانہ نظام کے بدترین مخالف تھے ــ مولانا حسین احمد مدنی اور عبیدالله سندھی اور عبدالرحیم پوپلزئی ثانی ایک ہی سکول آف تھاٹ کے لوگ تھے ـ
1939 ء میں بنوں میں فرنگی استعمار کے خلاف احتجاج میں شامل ہوئے جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کرکے پانچ سال کے لیئے پس زندان کردیاگیا ـ 1944 میں ان کی وفات ہوئی ـ
ان کی وفات کے بعد مسجد قاسم علی خان کے امام ان کے چھوٹے بھائی عبدالقیوم پوپلزئی ٹہرے
مولانا عبدالقیوم کی وفات کےبعد مفتی شھاب الدین پوپلزئی مسجد قاسم علی خان کے امام قرار دیئے گئے ـ
اور ابھی تک اس منصب پہ ہیں ـ
پاکستان بننے سے بھی بہت پہلے پہلے مسجد قاسم علی خان سے اعلان کےبعد رمضان المبارک کا آغاز اور عید ہوتی تھی جو اب تک جاری ہے ۔ یہ کوئ آج کی بات نہیں ہے ـ
ایک طرف یہ تاریخ ہے اور دوسری طرف انیس سو چوہتر میں بننے والی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمان صاحب اور اب ایک نیا سربراہ ہیں ـ
ایک طرف احمدشاہ ابدالی کے دور کے قاضی کی نسل کا فیصلہ ہے اور دوسری طرف ـ۔۔۔؟؟؟
باقی کچھ کہنے سے قاصر ہوں فیصلہ آپ پہ ہے ـ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں