جمعرات، 9 مئی، 2019

تحصیل مٹہ کی تاریخی پس منظر اور مسائل


تحصیل اور سب ڈویژن کا صدر مقام مٹہ ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً 21 کلومیٹر کی دوری پر شمال کی جانب واقع ہے۔

مٹہ اور اہل مٹہ کی قسمت کی کلیاں اس وقت واہ ہوئیں، جب 1951ء میں والی سوات میاں گل جہانزیب نے اپنے والد بزرگوار میاں گل عبدالودود عرف باچا صاحب کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نل کے بجائے مٹہ کو تحصیل کا درجہ دیا۔ اس فیصلے سے جہاں ترقی کی ابتداء ہوئی وہاں مٹہ کی آبادی کی راہ کھلی۔ اگر چہ 1945ء گورنمنٹ پرائمری سکول مٹہ کی بنیاد رکھنا باچا صیب کی ترقی کی طرف پہلا قدم تھا۔ پھر بھی یہاں تعلیم کی مد میں اصل ترقی اس وقت ہوئی جب 1949ء میں باچا صیب عنانِ حکومت سے دستبردار ہوکر حکومت اپنے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحق جہانزیب کو تفویض کردی۔

انہوں نے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے 1950ء میں مٹہ پرائمری سکول کو مڈل کا درجہ دیا۔ بعد ازاں 1955ء میں مٹہ کا بالائی سوات کے مرکز ہونے کے ناطے یہاں کی تعلیمی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ادارے کو ہائی سکول بنادیا گیا۔ 12 سال کا صبر آزما عرصہ گزرنے کے بعد یعنی 1967ء میں والی سوات کو مٹہ میں ایک ڈگری کالج بنانے کا خیال آیااور اس کے لئے سال 1967-68ء کے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ۔ کالج کی تعمیر کا کام تو والی سوات کے عہد حکومت میں ہی پوری طرح مکمل ہوگیا تھا، لیکن اسی وقت 1969ء میں ریاست سوات کا پاکستان میں ادغام ہوا اور مذکورہ کالج میں کلاسسز کا باقاعدہ آغاز ریاست کے ادغام کے بعد ہوا۔

 باچہ صیب کے زمانے میں مٹہ میں حفظان صحت کےلئے ڈسپنسری کی اپ گریڈیشن کی منظور ی دے دی۔ اب یہ ہسپتال بنیادی اہم ضروریات کے ساتھ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال(  موجودہ ذاکر خان شہید ہسپتال ) کے نام سے منسوب ہے۔

1988ء میں وزیر اعلیٰ N.W.F.P (خیبر پختونخواہ ) فضل حق صاحب نے تحصیل مٹہ میں پولیس سٹیشن کی باقاعدہ منظوری دیدی۔

چھ سال کاعرصہ گزرجانے کے بعد یعنی 1944ء کو وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیر پاﺅ نے تحصیل مٹہ کو سب ڈویژن کا درجہ دیدیا۔ جس سے ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آگئی اور یہ علاقہ بہت جلد بام عروج تک پہنچ گیا۔ مٹہ میں اس وقت تقریباً 83 مارکیٹیں اور 10500 کے قریب دکانیں ہیں۔

مٹہ PK-09 حلقے کا مرکز ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہیں کہ یہاں سے جو بھی MPA منتخب ہوتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی صوبائی وزارت ملتی ہے۔ اس طرح محمد افضل خان لالا (مرحوم) اور شجاعت علی خان ( مرحوم ) بھی یہاں سے وفاقی وزیر منتخب ہوئے ہیں۔موجودہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواا محمود خان کا تعلق بھی تحصیل مٹہ سے ہے ۔

 لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ءکے مطابق تحصیل مٹہ 13 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ مرکزی شہر کی حیثیت سے مٹہ کی آبادی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کے منازل طے کررہی ہے۔ یہاں تک کہ ایک گنجان آبادی ٹاﺅن اور بڑے بازار کی شکل میں اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

 بڑھتے ہوئے آبادی کی رو سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے جس میں آلودگی ، گندگی ، نکاسی آب ، ناجائز تجاوزات اور بجلی کے مسائل سرفہرست ہیں ۔ آبادی کے اس بے تحاشہ اور بے ترتیب اضافے اور خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی صورت میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے ۔

مثلاً پینے کے صاف پانی کی دستیابی ، نکاسی آب اور بجلی کی فراہمی وغیرہ کے عدم موجودگی ، جس کی وجہ سے دکاندار حضرات اور مسجدوں اور کنووں سے پینے کا صاف پانی بھر کر لاتے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ نکاسی آب کا ہے۔ جب ہمارے لوگ آبادی کرتے ہیں تو ایک چھوٹی سے نالی کو چھوڑنے تک گوارہ نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس ندی نالوں پر چھت کر کے اس پر آبادی کرتے ہیں ۔ جب بارش ہوتی ہے تو پھر مٹہ شہر کے تمام سڑکیں تالاب جیسی منظر پیش کرتی ہیں۔ جس سے نہ صرف پیدل چلنے والے لوگوں کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بلکہ گاڑیوں کی آمدورفت میں بھی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح یہاں حکومت نے پیدل چلنے والے لوگوں کے لئے جو فٹ پاتھ بنائی ہے اس پر دوکاندار وں، گاڑیوں ، ریڑیوں اور خوانچے والوں کی ناجائز تجاوزات کی بھر مار ہے۔ ہر دکاندار دکان کا کچھ نہ کچھ سامان باہر نکال کر اسے فٹ پاتھ پر رکھتے ہیں اور ہماری انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے تماشائی بنی بیٹھی ہوئی ہے۔ جب کبھی کبھار انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو ہمارے دکاندار حضرات دکانیں بند کر کے ان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور ان کو کاروائی کئے بغیر لوٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ دراصل وہ ان ناجائز تجاوزات کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ گندگی کا ہے مٹہ بازار میں جابجا گندکی ڈھیروں نے یہاں کی عوام کا جینا حرام کردیا ہے۔ مٹہ بازار کے وسط میں میونسپل کمیٹی والوں نے ایک ٹرالی لگا رکھی ہے جس کی موجودگی پورے بازار کے لئے گویا اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ ہمارے دکاندار حضرات کے پاس کوڑہ جمع کرنے کے لئے مناسب جگہ نہیں ہے۔ اسلئے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی دکانوں کاسارا کچرا سڑک کے کنارے پھینک کر ایک ڈھیر بنادیتے ہیں۔ اور میونسپل کمیٹی والوں کو اللہ بخشے جب وہ اس کچرا اٹھانے آتے ہیں تو وہ سڑک پر پھیل چکا ہوتا ہے۔ کئی بار میں نے خود دیکھاہے۔کہ جب میونسپل کمیٹی کے ملازمین یہ کچرا اٹھانے آتے ہیں تو دکانداروں سے اس کا معاوضہ طلب کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی دکاندار معاوضہ دینے سے انکار کردیتا ہے تووہ ملازمین وہ کچرا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔

 مسائل کے اس انبار میں تیسرا مسئلہ بجلی کا ہے یہ مسئلہ مذکورہ بالا مسائل سے اہم اور بڑا ہے کیونکہ یہ صرف تحصیل مٹہ یا ضلع سوات کا نہیں بلکہ پورے دیس کا ہے۔ بجلی کے مسئلے کی بات یہ ہے کہ اول بجلی تو صرف برائے نام کی ہے اور پھر اس کا انتظام بھی اتنا ناقص ہے کہ معمولی آندھی سے بھی کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ کیونکہ ترسیلی تار خراب اور ٹیڑھے کھمبے خستہ حال بس ایک آفت ناگہانی ہی معلوم ہوتی ہے۔ واپڈا والے بے چارے تو دن میں کئی مرتبہ چکر لگاتے ہیں ۔ مگر عملی طور پر کچھ کرتے نہیں ۔ اس طرح بجلی کا ایک اور مسئلہ بھی قابل غور ہے۔ اور وہ ہے اوور لوڈنگ کا ، مٹہ بازار میں عام طور گھریلوں صارفین کلئے جو ٹرانسفارمر لگادی گئی ہے۔ وہ عام طور پر کمرشل استعمال ہوا کرتی ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ مارکیٹوں کے لئے ایک الگ کمرشل ٹرانسفارمر کا انتظام کرنا چاہئے۔ تاکہ گھریلوں صارفین کے لئے مشکلات نہ ہو۔

 ان تمام مسائل پر قلم کشائی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا انتظامیہ ، حکومت اور ساتھ ہی ساتھ عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ انتظامیہ اور حکومت اندھی ، بہری اور گونگی ہوچکی ہے۔ نہ کچھ بول سکتی ہے، نہ سن سکتی ہے اور نہ دیکھ سکتی ہے۔ عوامی منتخب نمائندے اسمبلیوں میں جاکر خوب عیش وعشرت سے پانچ سال گزارتے ہیں اور پھر الیکشن کے وقت حلقے میں آکر دوسرے سیاستدانوں کو مناظرے کا چیلنج دیے دیتے ہیں کہ آپ نے زیادہ کام کیا ہے یا ہم نے ۔۔۔؟ 

ہمارے یہ بے شعور سیاستدان ٹوٹے پھوٹے کا موں پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور اسے عوام پر ایک احسان سمجھتے ہیں۔ ان نادان لوگوں کو یہ شعور نہیں کہ اس عوام کے فلاح وبہبود کے لئے کام کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ ان عوام نے تو انہیں اپنے دیرینہ مطالبات منوانے اور اپنی مسائل کے حل کےلئے اسمبلی میں بھیجا تھا ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والوں کے کھوکھلے نعرے صرف اور صرف بے عملی دعووں میں تبدیل ہوئے ۔اب تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کاتعلق تحصیل مٹہ سے ہوتے ہوئے بھی عملی طور پر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی۔

کہاں ہے۔۔؟ آج وہ لوگ جو تحصیل مٹہ کو رول ماڈل بنانے کے بلند وبانگ دعوے کرتے تھے۔ میرا تو اپنے شہر کے اس حالت زار کو دیکھ کر دل بہت ترستا ہے کہ آخر تحصیل مٹہ کی اس مظلوم عوام کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے کے لئے کون مسیحا بن کر آئے گا۔ کیونکہ تحصیل مٹہ تبدیلی کی حکومت میں آج بھی تبدیلی کی منتظر ہے ۔ ایسے نااہل اور بے شعور سیاستدانوں کی موجودگی میں اللہ ہی ہمارا حافظ وناصر ہو ۔ امین

                                             تحریر : اختر حسین ابدالی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں