بدھ، 8 مئی، 2019

گودر صرف فوک لور اور گیتوں میں رہ گیا




مرکب لفظ " گودر " میں واؤ معروف بولا جاتا ہے اگر واؤ کی ادائیگی " لین " سے ہوجائے جیسے اور یا عورت تو گو بنے گا ۔ مؤنث گو ( گائے ) کی بجائے مذکر گو لیا جائے تو مطلب کھائی ، غار ، سوراخ ، گڑھا یا جنگلی جانور کا بھٹ ہوگا جبکہ " در " تو دروازہ ، داخل ہونے کی جگہ یا مقام ہی ہے ۔ مطلب کسی گڑھے کا دروازہ ہندی زبان کا پنگھٹ گودر کا ہم معنی لفظ ہے جس کا مطلب پانی بھرنے کا مقام ، کنواں یا بہتے پانی کا کنارا ہے جسے گھاٹ بھی کہتے ہیں یعنی وہ جگہ جہاں لوگ نہاتے دھوتے یا کشتی میں چڑھتے اترتے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ چشمہ ، نہر یا دریا کا وہ کنارا جہاں سے لوگ پانی لاتے ہیں ، دریا پیرتے ہے اور کشتی بان کشتی روانہ کرتے ہیں ۔ چونکہ روز اول سے انسان چشموں ، ندیوں، نہروں اور دریاؤں کا پانی استعمال کرتا آیا ہے اس لئے روئے زمین کے ہر کونے کا انسان گودر سے نا آشنا نہ ہوگا ۔ لیکن پشتون سماج نے اسے ثقافت کا حصہ بنایا ہے ۔ ان کے ہاں گودر اگر پانی بھرنے کا چشمہ ہے تو کپڑے دھونے کا گھاٹ بھی ۔ جالہ وان کا اڈہ ہے تو مسافر کا آرام گاہ بھی ۔ پشتو زبان کا روزمرہ " رَو گودر سمول " یعنی سیدھا راستہ چُننا اور محاورہ ( بے گودرہ ورگڈیدل ) اس سے بنے ہیں ۔ لیکن شہرت کی اصل وجہ رومانیت ہے ۔ جبھی تو یہ جوانوں کے ارمانوں کا مسکن ہے ۔ پشتو شاعری خاص کر رومانی گیت اس کے بغیر بے معنی ہیں ۔ گودر کی رومانیت کا اندازہ ان چند گیتوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ 
جینکئ اوبو لہ زینہ د بنگلے د سر ھلکہ گولئ پہ وار کڑہ       جینکئ ڈلے ڈلے راغلے جان وڑے لیلو مازیگر دے  
منگی راوخلئ زئ چی بر گودر لہ زونہ    
 د منگی غاڑہ ئی شنہ لمن ئی سپینہ کنہ 
 گل پہ غاڑہ ئی زنگیگی تاویزونہ کنہ د منگی   
گودر تہ راغلہ سہ پہ نخرو ٹیکرے ئی ڈک دے پہ ستاروں ۔
منگے( مٹکا ) اور گودر لازم و ملزوم تھے ۔ اس کے ساتھ لڑکی ( جینئ ) کا ذکر آتا تو عاشقانہ مزاج دھماچوکڑی کرکے دھمال پر مجبور ہوتا تھا ۔ اس لئے تو جوان گاتے گنگناتے دور سے گودر کا نظارہ کرتے یا کسی پوشیدہ مقام سے چپکے چپکے راہ تکتےتھے ۔ علی الصبح ، عصر اور عشاء کے اوقات میں گودر کا میلہ سجتاتھا ۔ لیکن عام طور پر عصر ( مازیگر ) کا وقت زیادہ مشہور ہے ۔ جوان بے تابی سے ان اوقات کا انتظار کرتے تھے البتہ عشاء ( ماسخوتن ) کا وقت زیادہ خطرناک ہوتا تھا ۔ جس میں ملن کا امکان تو ہوتا تھا ساتھ ہی بھاگنے والوں کا نقطۂ آغاز اس وقت گودر سے ہوتا تھا جس میں ایک لڑکی مٹکا پھینک کر سیاں جی کے ساتھ نودو گیارہ ہوجاتی مگر ایسے  واقعات بہت کم رونما ہوتے تھے ۔ کیونکہ بڑی عمر کی خواتین جو پانی بھرنے جاتی تھیں ۔ عورتوں کے اس میلے میں کوئی یارنی کا انتظار کرتے تھے تو کوئی کسی دوسری خاتون کو گھر کی کہانی سناتی ۔ ایک دوسرے پر پانی پھینکھتیں اور آپس میں ایک دوسرے کو چھیڑتے جس سے کھبی کھبار جنگ بھی چھڑ جاتی ۔ جیسا کہ یہ پشتو ٹپہ ہے 
  پہ گودر جنگ د جینکو دے 
 منگی ئی مات کڑل پہ غڑو ویشتل کوینہ 
اسی لئے تو حکیم اللہ بریالی نے شعری مجموعے کا نام " جنگ ئی د گودر غیگے لہ وڑیدے " رکھ دیا ہے ۔ 
یہ تماشہ ممکن تھا کیوں کہ پشتون معاشرے نے گودر میں خواتین کے اوقات مقرر کئے تھے ۔ ان اوقات میں کسی کا مجال نہ تھا کہ گودر جانے یا گودر جانے والے راستے کے آس پاس بٹھک جاتے ۔ اور تو اور ہم نے یہاں تک سنا ہے کہ خواتین ندی ، دریا یا چشمے کے قریب بنے غسل خانے میں ان مقرر اوقات میں نہاتے تھے ۔ شہباز محمد میجر راورٹی کے 1858ء کے رپورٹ کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " گاؤں پیتئی ( فتح پور ) میں دریا کے کنارے پتھر اور گارے کے غسل خانے ( چارجوبئی ) بنائے گئے ہیں جس میں صبح سویرے عورتیں نہاتی ہیں اس وقت مرد وہاں نہیں آسکتا ۔ شاید یہ ٹپہ اسلئے مشہور ہے ۔ 
 پہ گودر ناستہ زلفےوینزی 
  پہ نری باد ئی وچوی جانان لہ زینہ ۔
تاریخ گواہ ہے کسی شخص نے گودر پر بے وقوفی کی ہے گاؤں والوں نے اس کا بھرکس نکالا ہے ۔ ایسا عمل اکثر بڑی جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے ۔ مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی فوجیوں نے کنڑ کے مقام پر ایک گودر میں لڑکیوں کو چھیڑا تو مقامی لوگوں نے انہیں مار مار کر ان کا کچومر نکالا جس سے چند سپاہی موقع پر ہلاک ہوگئے اس پر اورنگ زیب طیش میں آگئے ۔ اپنے سپاہیوں کا بدلہ لینے کی خاطر پشتون قبائل پر حملہ آور ہوئے ۔ در ایں ویلا ایمل خان مہمند  نے مختلف قبائل اکھٹا کیےاور مغل فوج کو شکست فاش کیا ۔ ان کے ہزاروں سپاہی مارے گئے ۔ پشاور کے گورنر امین خان کی بیوی چند خواتین سمیت ایمل خان مہمند کے ہاتھ لگ گئی جنہیں بعد میں تاوانِ جنگ لے کر چھوڑنا پڑا ۔ یاد رہے کہ خوشحال خان خٹک اس جنگ میں اورنگ زیب کے ساتھ تھا ، بعد کے زمانے میں اُنھیں کہنا پڑا کہ جنگ میں مغل کا ساتھ دے رہا تھا لیکن دل میں پشتونوں کی فتح کےلئے دعا مانگتا تھا ۔ گودر اور درخت کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں جہاں چشمہ ہوا کرتا تھا وہاں وہاں چنار کا درخت بھی موجود تھا ۔ بغیر درخت کے گودر بہت کم تھے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب گھر بار کے اکثر کام خواتین کیا کرتی تھیں ۔ ٹیوب ویل اور نلکے کا رواج نہ تھا ۔ آبادی کم تھی اور معاشرہ بالکل زرعی تھا ۔ جونہی معاشرہ بدلنے لگا ساری چیزیں بدلنے لگیں ۔ جس سے میدانی گاؤں اور قصبوں میں گودر کا رواج ختم ہوا ۔ لیکن اب بھی پانی کی قلت والے علاقوں میں عورتیں پانی بھرنے جاتی ہیں یعنی گودر اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ تا ہم جو بات پرانے گودر میں تھی اب وہ نہیں رہی ۔ نہ تو کسی کے پاس وقت ہے کہ باڑوں کے پیچھے بیٹھے ، کسی گلی کے نوکڑ سے تاک لگائے یا گودر کے آس پاس کی کھیتوں میں گشت لگائیں ۔ نا ہی سکھیاں وہاں بیٹھ کر گپیں مارتی ہیں اور نا ہی ان کی شرارتیں ہوتی ہیں ۔ بعض چشمے تو سوکھ کر آندھی ہوگئی ہیں اور نہریں بھی پانی بھرنے کے قابل نہیں رہیں ۔ 
    قارئین ! جاتے جاتے گودر سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ   کیجئے۔ 
 چی مازیگر پرے خائستہ کیگی  
منگے نارے ورتہ وہی گودر لہ زونہ 
گودر لہ راپسے راشہ ما پہ منگی کے پراٹے راوڑی دینہ
چی مازیگر شی منگے واخلہ ز لیونے بہ د گودر پہ غاڑہ یمہ
منگیہ قدر دے پکار دے میرمن دحسن دے دسر د پاسہ وڑینہ

                       
                                       تحریر : ساجد ابو تلتان 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں