ان دنوں اڈیالہ جیل کا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایوب نامی ایک سینئر افسر تھا ۔ جس نے مختلف جیلوں میں مختلف سیاستدانوں کے ساتھ بہت وقت گزارا تھا ۔ اس نے بعض اہم سیاستدانوں کے ایسے ایسے واقعات سنائے کہ اگر کھبی منظر عام پر آجائیں تو عوام دنگ رہ جائیں گے ۔
مثلا ایک بار ہم نے پوچھا کہ کونسا سیاستدان جیل کا اچھا تھا : کہنے لگا ،
عبدالولی خان ، ولی خان جیل میں کسی چھوٹے سے چھوٹے شخص سے بھی نہیں الجھتے تھے ۔ نہایت پرسکون طریقے سے قید کا زمانہ گزارتے ۔ جیل کی نظم و ضبط کی پوری طرح پابندی کرتے ، زیادہ تر خاموش رہتے اور سوچ بچار کرتے نظرآتے ۔
ایک رات شدید طوفان آیا ۔ موسلادھار بارش سے ان کی کوٹھڑی کی چھت گر گئی اور پانی ٹپکنے لگا ۔ خان صاحب ساری رات ایک کونے میں کمبل اوڑھ کر بیٹھے رہے ۔ صبح عملے کو پتہ چلا کہ رات کو ان کی کوٹھڑی کی چھت گر گئی تھی ۔ اہل کاروں نے کہا ، خان صاحب ! آپ رات ہی کو بتا دیتے ہم آپ کو دوسری کوٹھڑی منتقل کردیتے ۔ خان صاحب نے بولا ، میں نے رات گئے آپ لوگوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔
ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی زبان سے یہ بات سن کر میرے دل میں خان صاحب کا احترام مزید بڑھ گیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں