جمعرات، 9 مئی، 2019

باچاخان کی گجرات جیل سے آزادی کا سبق اموز واقعہ




   11مارچ 1931ء گجرات جیل سے رہائی پر ہزاروں سکھ ، ہندو اور مسلمانوں نے فخر افغان بابائے امن باچا خان بابا کا پرتپاک استقبال کیا ۔
    باچا خان بابا نے لاہور میں دوستوں سے ملنے کا پروگرام بنایا اور لاہور کیلئے روانہ ہوئے راستے میں جہلم کے لوگوں نے ان کا زبردست استقبال کیا پھر وہاں سے وہ لاہور پہنچے۔
لاہور اسٹیشن پر مولانا ظفر علی خان اور دوسرے ساتھیوں نے ان کا استقبال کیا۔
    لاہور کے بعد باچا خان بابا واپس ہوئے راولپنڈی ، اٹک اور نوشہرہ کے اسٹیشن پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا پھر پشاور میں ساتھیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا اور پھر چارسدہ پہنچے جہاں لوگ ان کے منتظر تھے وہاں سے وہ اتمانزئی پہنچے اور سب سے پہلے تو شہداء کے مزاروں پر حاضری دی جو انگریز فوج کے گولی لگنے سے شہید ہو گئے تھے۔
یہ واقعہ محتصراً اس طرح ہوا کہ اتمانزئی میں خدائی خدمتگار جلسہ کر رہے تھے ان کے پیچھے فوج آ گئی اور انہیں منتشر ہونے کو کہا مگر لوگ نہ مانے آخر فوج نے ان پر گولی چلائی اور دو آدمی شہید ہوئے باقی افراد منتشر ہوگئے جلسے کے شرکاء میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل تھیں ان میں سے ایک فخر افغان بابائے امن باچا خان بابا کی بھانجی خواتین سے نکل کر جلسے کی طرف چل پڑی لوگوں نے کہا کہ تم کہاں جا رہی ہوں آگے تو گولیاں چل رہی ہیں اس پر فخر افغان بابائے امن باچا خان بابا کی بھانجی نے کہا کہ بے غیرتو! تم جو بھاگ رہے ہو اسی لئے میں گولیوں کے سامنے جا رہی ہو اس پر سب لوگ واپس آگئے اور فوج کو گھیرا ڈال دیا۔
شہیدوں کے مزار پر بابائے امن باچا خان بابا نے تقریر کرتے ہوئے محتصراً کہا۔
   " آزادی کا پودا جوانوں کے خون سے سیراب ہوکر پرورش پاتا ہے اور جو پودا ہم نے لگایا ہے وہ بہت جلد نشونما پا کر تناور درخت بن جائے گا کیونکہ اسے ہمارے نوجوانوں نے خون سے سیراب کیا ہے "۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں