بدھ، 22 مئی، 2019

زرعی معاشرے کے موبائل( گشتی ) پیشے اور تجارت ‬




       حرکت میں برکت ہے اور سفر وسیلۂ ظفر جیسی کہاوتیں بزرگوں کے علم اور تجربے کا نچوڑ ہے ۔ پیٹ سب کچھ کراتا ہے اسلئے کہ خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے جبھی تو وہ خونِِ جگری پی کر رزق حلال کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے چونکہ دانہ دانہ پر کھانے والے کا مہر ہوتا ہے ۔ اسلئے یہی دانہ پانی اسے جگہ جگہ کھینچ لاتا ہے ۔ 

   وہ حرفتی تعلیم یافتہ ہرگز نہیں ہوتا ، حالات ہی اسے حرفہ گر بناتے ہیں یا تجارت پیشہ ایسے لوگ ان لوگوں کی طرح بالکل نہیں ہوتے جو کھانے کو بسم اللہ اور کمانے کو استغفراللہ کہتے ہیں ۔ بلکہ وہ کماؤ بیٹا بن کر اچھے اور غیرت مند آدمی کی طرح محنت کرکے خاندان اور برادری کا حق ادا کرتے ہیں ۔ جس کےلئے وہ مختلف پیشے اختیار کرتے ہیں ۔

     ایسے بہادر پیشہ وروں میں بعض گشتی پیشہ ور ہوتے ہیں ۔ جن میں بعض کا تعلق کسب سے تھا ۔ مثلاً پراچہ / کریگر: کسب کا یہ پیشہ تو ہمہ وقت موبائل سروس تھا ۔ درودگر: یہ ہنر مند لکڑیوں سے مختلف چیزیں بنانے اور اس کی مرمت کےلئے جاتے تھے ۔ پہلے زمانے میں کسب پر کام کرتے تھے بعد میں معاوضہ لینا شروع کیا ۔ نائی اکثر موبائل سروس کرتا تھا ۔ وہ نائیک کے گھر ، حجرہ اور حتی کہ کھیتوں تک جاکر ان کے بال منڈاتے اور حجامت کرتے تھے ۔ سوال جواب کا کام اس پر مستزاد تھا ۔ ان کا کام کسب میں شامل تھا ۔ جالہ وان کا کام تو ویسے ہی موبائل سروس تھا ۔

   یہ کام بھی کسب میں شامل تھا ۔ کچھ کام معاوضے پر کیے جاتے تھے ۔ جیسے نانداف ، روئی دھنکنے والا یہ پیشہ ور اپنا سادہ مشین ( ڈانڈت ) لے کر لوگوں کے گھروں میں جاتا تھا۔ مشین کو چھت یا اونچی جگہ سے باندھتا تھا اور روئی کو تانت کی پھٹکار سے پیٹتا تھا ۔ جس سے روئی نرم ہوجاتی تھی اور بستر و رضائی کے قابل ہوجاتی تھی ۔

      درزی( سرخی مار ) : یہ ہنر مند شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگوں کے ہاں جاکر ان کے کپڑے سیتے تھے ۔ نانبائی بھی شادی والے گھر جاکر کھانا پکاتے تھے ۔ طبیب یا حکیم : بعض لوگ طبیب کو علاج معالجے کےلئے گھر لے جاتے تھے وہ روایتی طریقوں سے مریض کا علاج کرتے تھے ۔ ایک طبیب جانوروں کا علاج بھی کرتا تھا وہ خصوصاً برسات میں آتا تھا تعویذوں اور کچھ روحانی طریقوں سے علاج کرواتا تھا جس کےلئے لوگ ان کو غلہ دیتے تھے ۔ ویسے کھمار تو گھر بیٹھے پثروا میں مٹی کے برتن پکاتے اور بیچتے تھے لیکن اکثر کھمارن مٹی کے بنے برتن موبائل سروس کے طور پر نقد فروخت کرتے تھے ۔ تیلی کا بھی یہی حال تھا ۔ 
   
     شاخیل بھی چمڑے کی چارپائی بننے کےلئے جاتے تھے ۔ نیز وہ چھان اور چھلنی بھی فروخت کرتے تھے اور بان کی چارپائی بُننے کے ماہر بھی لوگوں کے ہاں جاتے تھے ۔ جاڑے میں چھتری مرمت کرنے والا سائیکل پر سوار ہوکر گلی کوچوں میں پھرتے تھے اور لوگوں کی چھتریاں مرمت کرتے تھے ۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں مرمت کرنے والے مختلف ماہرین گلی کوچوں میں پھرتے تھے ۔ بعض خواتین حضرات چیزیں فروخت کرنے کےلئے گلی کوچوں میں پھرتے تھے ۔ جیسے کپڑا بیچنے والے یا والیاں کپڑا بیچنے کی آوازیں نکالتیں ۔ اسی طرح چھری تیز کرنے والا صان لے کر گلی کوچوں میں پھرتا تھا اور چھری ، چاقو تیز کرنے کا آواز لگاتا ہوا آگے بڑھتا ۔ 

     بنجاری اپنے صندوق میں منیاری کا سامان لےکر  یہی کام کیا کرتا تھا ۔ وہ کشیدہ کاری کا سامان بھی فروخت کرتا تھا ۔ بعض لوگ پہاڑوں سے لکڑیوں کے گھٹے لے آتے تھے ۔ وہ گھٹیا فروخت کرکے خریدار کے دروازے تک پہنچاتے تھے۔  یہ لوگ آبادیوں کےلئے " بورٹس " کے گھٹے بھی لے آتے تھے ۔ دودھ اکثر خواتین لاتی تھیں جسے وہ کنڈیوں کے حساب سے بیچتی تھیں ۔ فی کنڈی 
( برتن ) مکئ کے دانے یا آٹا لےکر دو کنڈی دودھ دیتیں ۔ بعض خواتین سوکھی ٹماٹر اور ڈرائی فروٹ لے آتی تھیں ۔ وہ ٹماٹر کو بھی کنڈی پر دیتے اور بدلے میں اسی پیمانے پر چاول لیتی تھی ۔

     علاوہ ازیں ہر موسم کا مقامی پھل جیسے انجیر ، کورے ، ٹانگو ، ناشپاتی ، خوبانی، آلوچہ اور کروڑے(مقامی جنگلی پھل) وغیرہ فروخت کیے جاتے تھے ۔ ساتھ ہی لوگ پہاڑوں سے برف بیچنے کےلئے آتے تھے ۔ جسے بیچ کر روزی روٹی کما لیتے تھے ۔ 

     دیسی گھی بھی فروخت کیا جاتا تھا سلور کے برتن فروخت ہوتے تھے ۔ قرآن مجید ، پارے ، جنتریاں ، قصوں کی کتابیں ، رشیدالبیان ، منیا اور خلاصہ وغیرہ گلیوں میں فروخت ہوتے تھے۔ بچوں کے کھلونے اور خوراک کی چیزیں بھی فروخت ہوتی تھیں۔  اس طرح بعض لوگ خریداری کےلئے گھومتے پھرتے تھے ۔ جیسے انڈے اور مرغی خریدنے والے گلیوں میں آواز لگا پھرتے تھے ۔ کباڑ اور پرانے اشیاء خریدنے والے گشت لگاتے تھے ۔

    ملنگ بھی مفت میں خدا ، رسول اور مختلف زیارتوں کا حوالہ دے کر گھر گھر سے آٹا مانگتا پھرتا تھا ۔ کچھ لوگ کشتی ملازم ہوتے تھے جیسے کخے کھیتوں کی رکھوالی کرتا تھ ، غوبہ جانور چراتا تھا ، چوکیدار چوکیداری کرتا تھا اور اوبہ وڑے نہروں پر پانی رواں رکھنے کےلئے چکر لگاتا پھرتا تھا ۔ 
  
     موبائل پیشے اور تجارت اب بھی بحال ہیں تا ہم اس کی نوعیت ضرور بدل چکی ہے ۔ آئندہ اس میں کش قدر تبدیلی آتی ہے یہ وقت بتائے گا ۔ لیکن یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہر پیشہ ضرورت کےلئے اپنایا جاتا ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ درجہ بالا پیشہ وروں اور تجارت پیشوں کی اولاد میں سے اکثر نے دیگر کام شروع کیے ہیں ۔

      اپنے ہی گاؤں کا ایک شخص پہلے حجامت کرتا تھا۔ زرگری سیکھ لی تو جیولر کہلایا ۔ پھر باغبانی شروع کی تو باغبان کہلایا اور اب ایک بار پھر جیولر کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ حالانکہ نسلی حوالے سے وہ ان تمام پیشوں سے مختلف ہے ۔ 

      میرے والد مرحوم فرمائش کرتے تھے ۔ بیٹا ! کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے یہ تہیہ کرلوں کہ اس کام کو پیشہ سمجھ کر اپناؤگے تو کامیابی ملیں گی ۔ اب میں سوچتا ہوں کہ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کیوں کہ انتظار کرنے والوں کو اتنا ملتا ہے جتنا کوشش کرنے والوں سے بچ جاتا ہے اور ہم انتظار کو صبر کا نام دیتے ہیں جس کے آخر میں ہمارے لیے یہ الفاظ رہ جاتے ہیں
 " قسمت میں نہیں تھا " ۔ 
                                              تحریر : ساجد ابو تلتان 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں