بدھ، 1 مئی، 2019

          ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات



                 
 
 
     پاکستان میں مزدوروں کے پتلی حالات اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری اور مناسب قانون سازی نہیں کی جاتی اور اگر کی بھی جاتی ہیں تو صرف کاغذی کاروائی تک محدود ، یہ کاروائی عملی جامہ اختیار نہیں کرتی ۔
        یکم مئی یوم مزدور تو منایا جاتا ہے لیکن ان کے ساتھ حکومتی سطح پر انصاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے نمائندگی کرنے والی لیبر یونین ان کی حقوق کےلئے آخری حد تک کوششیں کرتے ہیں ۔ نتیجہ سب کے سامنے  ہے کہ مزدور کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب تر ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ مزدوروں کی فلاح میں ارباب اقتدار اور یونینز اگر مخلص ہے تو عملی بنیادوں پر مزدور پالیسیوں میں درج تمام قوانین کو من و عن نافذ کرنا ہوگا.
     مملکت خداداد میں اب تک چھ لیبر پالیسیاں بنائی گئی ہیں ۔ پہلی لیبر پالیسی 1955 ، دوسری 1959 ، تیسری 1969 ، چوتھی 1972 ، پانچویں 2002 اور چھٹی لیبر پالیسی 2010 میں بنائی گئی لیکن یہ پالیسیاں بھی محض فائلوں تک محدود رہی ۔ عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو بندۂ مزدور کے تلخ حالات سنورنے کے بجائے آئے روز مزید تلخ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
     قیام پاکستان سے اب تک بننے والے چھ لیبر پالیسیاں صرف کاغذی کاروائیاں ہی ثابت ہوئیں ، کم اجرت میں زیادہ مشقت لینا معمول بن چکا ہے ۔
      دیگر مزدوروں کی طرح کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے  مزدوروں کے حالات نہ تو مالی لحاظ سے آسودہ ہے اور نہ ہی خطرات سے خالی ہے ۔ سالانہ اوسط لحاظ سے صرف صوبہ بلوچستان میں 80 کے لگ بھگ کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدور کانوں میں زہریلی گیس بھرنے سمیت دیگر حادثات کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ پاکستان سنٹرل مائینز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ سال 2018 میں کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے 93 مزدور کام کے دوران پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ کانوں کی کھدائی ٹھیکیداری کے بنیادوں پر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں کی زیادہ توجہ فراداں منافع حاصل کرنے پر ہوتی ہیں ۔ اسلئے مزدوروں کی حفاظتی انتظامات کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی  اور یوں دو وقت کی روٹی پیدا کرنے کی غرض جان ہتھیلی پہ رکھنے والے محنت کش ٹھیکیدار حضرات کی لالچی پالیسیوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ سال 2018 کی طرح سال 2019 میں بھی کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے سر پر موت کے بادل منڈ لا رہے ہیں ۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے سال نو کے دوسرے ہی روز  ایک حادثے میں 4 محنت کش ضلع دکی کے ایک کان میں گیس بھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے۔  چیف انسپکٹر مائینز بلوچستان کے مطابق ضلع دکی کی کان میں رونما ہونے والا یہ چوتھا واقعہ تھا جن میں مجموعی طور پر 10 مزدور جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ کوئلے کے کانوں میں حادثات سے نمٹنے کیلئے ضروری حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا ہلاکتوں کا باعث ہے ۔ اگر چند ایک ضروری حفاظتی انتظامات کے لئے عملی اقدامات کی جائے تو حادثات کی شرح کو صفر تک لایا جاسکتا ہے ۔ کانوں میں زہریلی گیس چیک کرنے اور اس سے بچنے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ کانوں میں آکسیجن چیک کرنے کا انتظام بھی ہونا چاہئے تاکہ زیرزمین آکسیجن کے زائل ہونے سے بچا جاسکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک سے زائد متبادل راستوں کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے تاکہ کان میں حادثے کی صورت میں مزدوروں کو متبادل ایمرجنسی راستوں کے ذریعے سے نکالا جا سکے ۔ دیگر امور کی طرح معائنے کے لیے سرکاری انسپکٹروں کی وافر مقدار میں تعیناتی بھی ضروری ہیں تاکہ وہ کانوں کے اندر سیفٹی کے ضروری اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ جان لیوا حادثات سے بخوبی نمٹا جا سکے۔ 
     بقول شاعر  ، 
 یہاں مزدور کو جلدی یوں بھی ہے محسن 
     کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہوجائے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں