اتوار، 5 مئی، 2019

”پب جی“ کا جنون اور نئی نسل


      ٹیکنالوجی میں پے در پے تبدیلیوں نے ویڈیو گیمز کے ایسے درکھولے ہیں جہاں ایک طرف بہت سارے فوائد نظر آرہے ہیں ، وہیں بہت سارے نقصانات نے بھی جنم لیا ہے ۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے نو جوان اور بچوں کے لئے ویڈیو گیمز کو انتہائی سستا اور آسان کر دیا ہے ۔ ایسے ہی لاکھوں گیم میں پَب جی گیم سے ہر کس وناکس متاثر ہو رہا ہے ۔

      پَب جی انگریزی زبان کا اختصار ہے ۔  اسے یوں لکھا جاتا ہے " PUBG " اور یہ ان الفاظ کا اختصار ہے " Player Unknown's Battle Grounds " ۔ اسے سال 2016 میں   "پَب جی کارپ " نے " بلوہول " نامی کمپنی کے اشتراک سے لانچ کیا ، لیکن 23 مارچ 2017ء  میں" پَب جی کارپ " نے اس میں مزید آپشنز شامل کرتے ہوئے اسے باقاعدہ اَپ ڈیٹ کیا ۔ تب سے اس گیم کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مئی 2018 کے ایک ریسرچ کے مطابق 50 ملین لوگ PUBG گیم کھیلتے ہیں جن میں 2 ملین ( بیس لاکھ ) صرف پاکستانی ہیں ۔

   قارئین ! بچے کیا نوجوان طبقہ بھی دن رات بیشتر وقت اسی گیم کھیلنے میں صرف کرتا رہتا ہیں ، پب جی کھیلنے والوں کی صحت پر بھی بُرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔ گیم بنانے والے کمپنی" فن لینڈ " کی فرم  "سُپر سیل" اور" بلوہول "  ساوتھ کوریا  کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اِس مذکورہ ویڈیو گیم میں موجود اَینی میشن ( Animation ) کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کر دیتی ہیں اور یہ بھی خبر دار کیا ہے کہ یہ اور اِس جیسے ویڈیو گیم بہت زیادہ کھیلنے سے ہاتھوں میں رعشہ ( ایک اعصابی بیماری جس سے خود بخود ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں ) پیدا ہو جاتا ہے ۔ یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہو جاتی ہیں ۔

  علاوہ ازیں موبائیل پراُنگلیوں کی مسلسل حرکت کی وجہ سے ابہام والی انگلی کو بہت زیادہ نقصان پہنچ جاتا ہے ویڈیو گیمز کھیلتے ہوئے آنکھوں کی حرکت تیز ہو جانے کی وجہ سے آنکھوں پربھی بُرا اثر پڑتا ہے ۔ الیکٹرومیگنیٹیک ویو
( مقناطیسی لہریں ) موبائیل اسکرین سے نکلتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے آنکھيں سرخ اور خشک ہو جاتی ہیں ۔ حتیٰ کہ یہ گیم کھیلنے والوں میں خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مریض بھی بن کر رہ جاتے ہیں ۔ پب جی گیم ایک ایسا گیم ہے جس میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل کر کے انکی املاک تباہ کر کے ناحق انہیں زدوکوب کر کے لطف اٹھایا جاتا ہے ۔ مکمل گیم اختتام تک کھیلنے والوں کو ایک فرضی  "چِکن ڈِنر " کی شکل میں انعام ملتا ہے ۔ بچے اور خاص طور پرنوجوان نسل اس قسم کے ویڈیو گیمز کثرت سے کھیل کر جرائم کے نت نئے طریقے اور ترکیبیں سیکھ لیتے ہیں، یہ گیمز انکے ذہنوں میں تشدد ، مار دھاڑ اور لڑنے جھگڑنے کے ایسے ہنر پیدا کر دیتے ہیں جن سے وہ ویڈیو گیمز کے کھیلنے سے پہلے خالی الذہہن ہوتے ہیں ۔ یقینا یہ ایسا گیم ہے جِس سے  واردات ، خونریزی اور جرائم کو پھیلایا جارہا ہے ۔ گیم کھیلنے والوں کو ایک ایک ہتھیار ، بندوق ، گن کا نام ازبر ہوجاتا ہے ۔ ساتھ ساتھ اِس گیم میں منشیات کا استعمال ، تشدد ، ماردھاڑ ، چھُپ چھپا کر قتل کرنا ، گروہوں کے درمیان لڑائی ، نازیبا اور عامیانہ الفاظ کا استعمال عام بات ہے ۔ عام فرد کے لیے وہ تصوّرات اور الفاظ جن کو پہلے کبھی سوچنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ ان گیمز کے ذریعے زندگی میں رچتے بستے جا رہے ہیں، اور معاشرہ ان کے کثیر استعمال کے باعث انہیں قبول کر کے اپنے اندر ضم بھی کر رہا ہے ۔

تشدد ، ماردھاڑ اور جنگ کے مناظر عام افراد خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کیا اثرات مرتب کریں گے اس سے موبائیل اور گیم کمپنیوں کو کوئی سرو کار نہیں ۔ لیکن یہ سوال معاشرے کے لیے بے حد اہم ہے کہ پُرتشدد اور اخلاق باختہ ویڈیو گیمز کے پھیلاؤ کے بعد اس قوم کا اخلاقی مستقبل کیا ہو گا ؟

   ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان چیلنجز اور مسائل کو نمٹنے کےلئے اور اپنے بچوں کو ان چیزوں کے معاشرتی منفی اثرات سے بچانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تا کہ ہمارا یہ مستقبل محفوظ پروان چڑھ سکے ۔ ورنہ ایسے موبائیل گیم اور انٹرنیٹ کے سائے میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے ادب ، اخلاقیات ، انکساری ، تحمل ، صبر ، حیاء اور دردمندی جیسے الفاظ عجوبہ بن جائیں گے ، اور آنے والی نسلیں ان الفاظ کے استعمال پر حیرت سے منہ تکیں گی ۔ 

                         تحریر : اختر حسین ابدالؔی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں