بدھ، 15 مئی، 2019

چھلّا چھپول ، جاڑے کی لمبی راتوں کا کھیل




      انگلی میں پہننے کا حلقہ نما زیور جو اکثر نگنے دار ہوتا ہے ، انگوٹھی ، انگشتری ، مندری یا خَاتم کہلاتا ہے ۔ یہ زیور بظاہر تو انگوٹھا کی تانیث لگتا ہے لیکن حقیقت میں انگوٹھا اُنگلیوں سب سے موٹی اُنگلی ہے ۔ جسے ٹھینگا یا نرانگشت کہتے ہیں اور جس کا انگوٹھا چھاپ نشان دستخط کے بجائے دستاویز پر ثبت کیا جاتا ہے ۔ انگشتری نام انگشت سے نکلا ہے ۔ خاتم اگر چہ اصطلاحاً مہر یا مہرِ تصدیق ہی ہے لیکن خاتم سلیمانی کا مطلب انگوٹھی ہے جس پر روایت کے مطابق اسمِ اعظم لکھا ہوا تھا ۔ اس کے باعث تمام مخلوقات حضرت سلیمان علیہ السلام کی مطیع تھی ۔ مُندری بھی جوگیوں کے کان اور انگلی میں ڈالنے والا زیور ہے ۔ 
  
      اس زیور کا ایک نام چھلّا بھی ہے ۔ جیسے یادگار کے طور پر کسی سے انگوٹھی لینا یا چھلّا لینا کہلاتا ہے ۔ چھلّا سے چھلّا چھپول بنتا ہے جو ایک قسم کا کھیل ہے جس میں دونوں مٹھیوں میں سے ایک میں چھلّا چھپا لیتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ کس ہاتھ میں چھلّا ہے ۔ جو صحیح بتا دیں چھلّا اس کا ہوجاتا ہے ۔ اس کھیل کو بند مٹھی ، گتہ اور ہمارے ہاں گوتئی
 ( مقامی نام ) کہا جاتا ہے ۔ 

     اس کھیل میں چار سے لے کر دس بارہ تک کے کھلاڑی جمع ہوجاتے ہیں اور آپس میں دو گروپ بنا لیتے ہیں ۔ پوائنٹس کی حد مقرر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے سامنے چارپائیوں میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے باری لینے کے لئے انگوٹھی کے مقابلے میں دو یا تین پوائنٹس مقرر کرتے ہیں ۔ جس کو انگوٹھی ملتی ہے ۔ وہ بخوشی مقررہ پوائنٹس مخالف کو دیتے ہیں ۔ انگوٹھی رکھنے والی ٹیم کے لڑکوں کے دونوں ہاتھ کسی چادر میں ڈھکے  ہوتے ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک لڑکا ایک مٹھی میں انگوٹھی بند کرلیتا ہے ۔ دوسرے ساتھی خالی مٹھی بند کرلیتے ہیں ۔  پھر سب اپنے دونوں ہاتھ آگے کرلیتے ہیں ۔ مخالف فریق کو پتہ نہیں ہوتا کہ انگوٹھی کو کھلاڑی کے مٹھی میں ہے ۔ مخالف ٹیم کا قائد اٹھتا ہے اور اپنے خیال اندازے ، فراست اور نفسیاتی سوجھ بوجھ کے مطابق ایک مٹھی کو آہستگی سے خالی " تش " کہہ کر ہٹا دیتا ہے ۔ جو اس کے خیال میں خالی ہو ۔ اس طرح وہ مزید مٹھیاں کھلواتا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ گنتی کی کچھ مٹھیاں باقی رہ جاتی ہیں ۔ قائد ان میں سے ایک مٹھی پکڑ کر کہتا ہے   (راکڑہ) یعنی نکال ، اگر واقعی اس مٹھی سے انگوٹھی نکل آتی ہیں تو انگوٹھی لینے والی ٹیم کی باری شروع ہوجاتی ہیں اور اگر اندازہ غلط نکلتا ہے تو پہلی ٹیم کو پوائنٹس مل جاتا ہے ۔

      اس طرح جس فریق یا ٹیم نے مقررہ پوائنٹس جلدی بنا لیے وہ فارغ ٹھہراتی ہے۔  یہ کھیل خیبر پختون خواہ کے مختلف علاقوں میں معمولی فرق کے ساتھ ایک دوسرے سے مختلف طریقوں سے کھیلا جاتا ہے ۔ کتاب 
" پشتون قبائل کے کھیل " کے مؤلفین سلمی نسیم اور شاہد نسیم کہتے ہیں کہ " یہ کھیل لڑکیوں میں بھی بہت مقبول ہے ، ایک ہی خاندان کے لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان یہ کھیل بڑے جذبے سے کھیلا جاتا ہے ۔ جس میں ہر صنف اپنی برتری کی کوشش کرتا ہے " ۔ 
   
    ہمارے ہاں جب جاڑوں کا موسم شروع ہوجاتا تھا تو لوگ حجروں میں جمع ہوجاتے تھے ۔ گپ شپ لگاتے تھے مگر سردی کی لمبی رات محض گپ شپ میں کاٹنا مشکل ہوجاتا تھا ۔ اسلئے لوگ آپس میں یہ کھیل کھیلتے تھے ۔ ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑی فی کس روپے جمع کرکے اپنے قائد کو دیتے تھے ۔ جرمانے کی یہ رقم دکاندار کو دے کر کھانے کی چیزیں خریدی جاتیں جسے سب مل کر اکھٹے کھا لیتے ۔ بعض اوقات یہ مقابلے دو گاوں کے درمیان بھی ہوتے تھے ۔ لیکن یہاں رقم جیتنے والی ٹیم کھا لیتی ان مقابلوں میں انگوٹھی کی جگہ پچاس گرام وزن مٹھی میں رکھتے تھے۔ گاوں کی سطح پر منجھے ہوئے کھلاڑیوں کا انتخاب ہوتا تھا ۔ بعض مقابلوں میں تو آٹھ آٹھ کھلاڑیوں کی ٹیمیں تشکیل ہوتی تھیں ۔ 
  
    اس لیول پر ٹورنامنٹس بھی مقرر کیے جاتے تھے جس میں بڑا ہوشیار اور تیز قیانہ شناس قائد کامیاب ہوجاتا تھا ۔ لیکن اکثر وقت کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھیل بہت زیادہ طویل ہوجاتا تھا ۔ ایک ہی رات میں مقابلے کا فیصلہ نہ ہو پاتا ۔ اس لئے کھیل کو ادھورا چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ اگلی رات یا تو کھیل اس جگہ سے شروع کیا جاتا یا پھر نئے سرے سے۔ ایسے ایسے ماہر کھلاڑی دیکھے ہیں جو سولہ مٹھیوں میں ایک مٹھی پکڑ کر بوجھتے تھے واقعی اس میں انگوٹھی نکل آتی ۔ 

    ایک دفعہ ایک ماہر نے دو ہاتھ پکڑے اور بولا کہ دونوں میں انگوٹھی ہے ۔ یقیناً دونوں میں انگوٹھی تھی کیونکہ مخالف ٹیم بے ایمانی پر اتر آئے تھی ۔ 
 
   قارئین! دوسرے گاوؤں کے کھلاڑیوں کے نام تو یاد نہیں ، البتہ اپنے گاؤں کے غلام رازق مرحوم ، محمد قوی ، گوہر ایوب اور رشید خان اس کھیل کے اہم کھلاڑی ہیں ۔ 
   
     وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھیل کی مقبولیت میں کمی آئی ۔ کیرم بورڈ ، لوڈوں اور تاش نے اسے ایک حد تک متاثر کیا تھا لیکن اب میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا نے تو بالکل ختم کردیا ہے ۔ 
  
     اب لوگوں کے پاس آتا وقت نہیں ہے کہ حجروں، بھیٹکوں اور دکانوں میں جمع ہوجائے اور چھلّا چھپول کھیل کر آخر میں مونگ پھلی ، چنّا ، سویٹس اور سوجی وغیرہ کھائے ۔ 
    
                                            تحریر : ساجد ابو تلتان 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں