دورِ جدید کی شاید سب سے بڑی ایجاد انٹرنیٹ ہے اور انٹرنیٹ کی سب سے بڑی تخلیق فیس بُک ہے ۔ ہمارے پاکستانیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ہر نئی چیز سے خوب محفوظ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک ہمارے معاشرے میں ضرورت نہیں بلکہ عادت بن گئ ہے ۔رات کو سونے سے پہلے اور صبح اُٹھنے کے بعد ہم مسنون دعائیں پڑھنے کی بجائے فیس بُک کا دیدار کرتے ہیں ۔ فیس بُک کی ایجاد سے پہلے ہم اگر اپنی معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ماحول یکسر مختلف نظر آتا ہے ۔ لوگوں کی ہاتھ میں موبائل صرف رابطے کے لئے ہی نظر آتا تھا ۔ لوگ گپ شپ لگانے،ایک دوسرے کی ذہنی تناؤ کم کرنے اور دل کی سکون پذیری کی خاطر اپنے دوست و احباب کی صحبت کو ترجیح دیتے تھے۔ مگر فیس بُک نے آکر انسانی وجود کی ضرورت کو کافی حد تک غیر اہم قرار دیا ہے ۔ اب جذبات اور احساسات کی اظہار کے لئے کسی کے گھر جانے کی ضرورت نہیں سبھی غم اور سبھی خوشیاں اب فیس بُک کی بدولت بیان ہوجاتی ہیں ۔
سالگرہ کی مبارکباد مع گلدستے اور کیک کی تصویروں سے لے کر بیماری اور موت پر عیادت اور تعزیت تک سب رسومات کی ادائیگی کو فیس بُک نے آسان کردیا ہے ۔ خوشی ہو تو منہ پھاڑ کر ہنستے ہوئے یا دُکھ و تکلیف کی اظہار کے لئے فیس بُک پرسٹیٹس کی شکل میں موٹے موٹے آنسو والے ایموجی لگا کر فیس بُک کی احباب کو اپنی جذبات سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ نتیجتاً کسی لشکر کی طرح تیار لوگ فوراًَ رومال لے کر پہنچ جاتے ھیں ۔ یوں لگتا ہےجیسے سارے زمانے کو صرف آپ ہی کے درد و غم سے واسطہ ہے ۔
کیا ہوا ؟ کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ کب ہوا ؟ یہ سارے سوال ایک ہی سطر میں نظر آتے ہیں ویسے سچ تو یہ ہے کہ مرد حضرات کو خواتین کی پوسٹ پر یہ غم زیادہ شدّت سے لاحق ہوتا ہے ۔ ہر کوئی عبدالستار ایدھی کی جانشین بننے کی سرتوڑ کوشش کر تا ہے ۔ فیس بُک نے لطیف جذبات کی ترجمانی بھی بڑی بےباکی سے کی ہے جہاں محبت اور دل بھی ہر جگہ لڑکھتا پھرتا ہے ۔ جہاں کسی کی بات من کو بھائی تو بڑا سا دل چپکا دیا ۔ فیس بُک پر ہر سِمت کا داخلہ جائز ہے چاہے وہ اخلاق و آداب سے کتنی ہی گری ہوئی کیوں نہ ہو ۔ کلامِ اقبال سے لے کر لطائف تک ، جنّت سے جہنم تک کا راستہ اور معاشرتی مسائل سے لے کر سیاسی پکڑ پن تک ہر موضوع یہاں کھلی عام ہے ۔
آزادی اظہار رائے کی اس سے بڑی کوئی مثال نہیں جس کا جو دل چاہے بس فیس بک پر اپ لوڈ کر دیں نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک ۔ فیس بُک کی بدولت آج کا بچہ جلد جوانی کی حدود پار کرلیتا ہے اور وہ ساری حقیقتیں جو کھبی بڑھاپے میں سمجھ آتی تھی ، فیس بُک نے بچپن ہی میں سیکھلا دی ۔ گویا یہ صرف دل بہلانے کا ذریعہ نہیں بلکہ تجربات اور مشاہدات کی بٹّی ہے صرف خواب نہیں دکھاتی بلکہ حقیقتوں سے بھی روشناس کرتی ہیں ۔ کچھ لوگ فیس بُک پر کسی فارغ اور پُر تجسُّّس پڑوسن کی طرح ہوتے ہیں سارا وقت حریفوں کی دیوار کی کھوج میں لگے رہتے ہیں ۔ آج کتنی پوسٹیں لگی ، کسی پر واہ واہ ہوئی ، کس پر نکتہ چینی کی گئی اور کس پر صرف لعنت لکھ دی گئی ۔ پہلے جب کسی پر غصہ آتا اور بدلے کی اوقات نہ ہوتی تو برداشت کرتے یا بہت ہوتا تو کسی ہم خیال قریبی دوست کی مجلس میں بیٹھ کر جلے دل کی پھپولے پھوڑ لیتے ۔ اب فیس بُک پر آتے ہیں بعض حضرات کی تمہید اخلاقی گراوٹ اور گیدڑ بھبکیوں سے شروع ہوتی ہے درمیان میں خاندانی پس منظر بیان کرتے کرتے ادب کی سطح سے لڑکھتے ہوئے انسانیت اور اخلاقیات سے بھی گر جاتے ہیں ۔ فیس بُک پر جس کا جتنا دل چاہے اوقات سے ، انسانیت سے ، اخلاقیات سے گر کر اور آدمیّت کے جامے سے نکل کر بات کر سکتا ہے ۔
یہاں نہ تربیت آڑے آتی ہے ، نہ تعلیم دامن پکڑتی ہے اور نہ ہی خاندان کی شان پاؤں کی زنجیر بنتی ہے ۔ غیرت اور شرم کو بالائے طاق رکھ کر جس کا جو دل چاہے سرا پھوٹتے ہیں۔ یہاں سب کچھ جائز ہے کیونکہ یہ آپ کا ٹائم لائن ہے جہاں آپ جو دل چاہے کہہ سکتے ہیں کسی کو تکلیف ہے تو فالو نہ کریں ، ان فرینڈ کردیں اور بہت ہی آگ لگی ہے تو بلاک کردیں ۔ گویا جنہیں ہم سے ملنا گوارا نہیں ہے ہم سے ملا نہ کرے ۔
تحریر : اختر حسین ابدالی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں