بقول وکیل حکیم زے اشر سر جی زبان حاشر سے نکلا ہے۔ جو لسانی اور معنوی اعتبار سے درست معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ پشتون " ح " یا "ہ" کو " ا " سے تلفظ کرتے ہیں ۔ جیسے وہ ھلک کو الک بولتے ہیں ۔ جبکہ حاشر کا مطلب جمع کرنے والا ہے ۔ جو حشر سے نکلا ہے یعنی اجتماع ۔
اب اشر کو مختلف ماہرین کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اشر کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک اپنی کتاب " پشتونولی " میں لکھتے ہیں کہ " مشترکہ طور پر گاؤں والوں یا قبیلے والوں کے کاموں کو سرانجام دینے کو اشر کہتے ہیں "۔ اس طرح پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے اپنی کتاب " پشتونولی عظیم قوم کی عظیم ثقافت " میں تحریر کرتے ہیں کہ " کسی بھی کام خصوصاً گھاس یا فضل کاٹنے کےلئے امداد باہمی کے طور پر بہت سارے لوگوں کا اکھٹے ہوکر کام کرنے کو اشر کہتے ہیں "۔ جبکہ پروفیسر صدیق اللہ رشتین اپنی کتاب " پختنے لارخود " میں رقم طراز ہیں ، ترجمہ : اشر اجتماعی زندگی اور مشترکہ کام کا ایک ایسا اچھا رواج ہے جس سے ہر ایک مکمل فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ بعض پشتون اشر کو پگڑہ اور بعض پلندرہ کہتے ہیں ۔
محولہ بالا مفکروں کے بحث سے واضح ہوا کہ پشتونوں میں اشر کا رواج پرانے زمانے سے رائج ہے ۔ اس کی رو سے لوگ کئی مشکل کام باآسانی سرانجام دیتے ہیں ۔ مثلاً گاؤں کےلئے نالے نکالنا ہو یا کنواں کھودنا ، گارہ کرنا ہو یا گھر بنانا ، نہروں کی صفائی کرنا ہو یا پانی کا انتظام کرنا ، فضل کاٹنا ہو یا لؤ کرنا ، غوبل گاہ ہو یا پھر کوئی مفاد عامہ کےلئے آبادی کی تعمیر ہو ، لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں اور ان کاموں کو مشترکہ طور پر پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔
صدیق اللہ رشتین کہتے ہیں " اشر کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں شریک لوگوں کو اچھا کھانا کھلا دیا جاتا ہے اور خوب سیر ہوکر خود ہوجاتے ہیں "۔ جیسے اپنے گاؤں کے غلام خان چاول کی پنیری لگانے ( نہل ) کے دن دنبہ ذبح کرتے تھے ۔ زرعی معاشرے میں اشر ہر کام کےلئے ایک بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے پشتو زبان کا ایک متل ہے
" د گنڑو امسا د یو گیڈے " اس اہمیت کے پیش نظر گاؤں کے تمام لوگوں پر اشر میں شامل ہونا لازم تھا ۔
اس ضمن میں راج ولی شاہ خٹک لکھتے ہیں کہ اشر میں مرد اور عورتیں حصہ لیتے ہیں ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اشر میں شرکت نہ کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ یعنی عدم شرکت ایک قسم کے ناغہ کا سبب بنتا تھا اور باغی کی تعریف کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حکیم زے کہتے ہیں کہ اس سے مراد آبپاشی کی نہر یا راستہ مرمت کرنے یا دوسری قومی اور اجتماعی کاموں میں حصہ نہ لینے پر کسی شخص کو جرمانہ کیا جانا اور جرمانے کی رقم کی نوعیت و مقدار اور اہمیت کی بنیاد پر رکھی جاتی ہے ۔
اشر کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنے گاؤں کہ زرین کاکا کے آٹھ کمروں والے مکان کا لینٹر اشر پر ہوا تھا۔ پہاڑی علاقوں میں گھاس کاٹنا " پشکالے ریبل " اشر کی مقبول قسم ہے جس میں ڈفلی ، پونکے ، سرنے ، اور بین باجا جیسے آلات موسیقی کا خوب انتظام کیا جاتا ہے ۔ ٹپے اور مسرعے اس پر مستزاد ہیں جو اشر والوں کو مزید جوش میں لاتے ہیں ۔ لو جو کہ زیادہ تر گندم کاٹنے کےلئے مستعمل ہے اشر کی اہم قسم ہے ۔ گوکہ گندم اکثر مشقتی ڈابی پر کاٹتے ہیں ۔ مگر بعض علاقوں میں اس کا اشر ہوتا ہے ۔ جیسے اس گیت سے واضح ہوتا ہے ۔
" زمونگ دکلی ددانے غم پہ پخیرو راغلی
لؤ لہ بہ رازے جانانہ لؤ لہ بہ رازے "
جبکہ گیت مشقت کو بھی ظاہر کرتی ہیں جیسے ،
مہ کوہ لؤونہ و شیرینہ یارہ ۔
1990ء تک اشر ، غوبل اور لؤ میں شریک کام کرنے کا رواج کسی نہ کسی حد تک گاوں میں موجود تھا ۔ جس کے بعد رفتہ رفتہ پہاڑی علاقوں تک محدود ہوتا گیا اور آج کل تو اتحاد و اتفاق کا کہی پتہ نہیں چلتا ۔ البتہ بونیر اور دیر کے بعض علاقوں میں اشر کا رواج ایک حوالہ سے موجود ہے ۔
جس طرح پرانے طور طریقے بدل چکے ہیں اس طرح یہ بھی ماضی کا حصہ بن رہا ہے ۔ جسے ہم یا تو یادوں کے البم میں محفوظ کرتے ہیں یا اسی قسم کی تحریروں میں ۔
جاتے جاتے لؤ سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ ہو ۔
ما نہ دی سٹہ دانے واخلی
پہ تا دی نکڑی تر غرمے پورے لؤونہ
باچائی تخت می پکار نہ دے
جاناں دی لؤ کڑی زہ بہ وگی ٹولومہ
د ھاغہ شپی سحر را مہ شہ
چہ جانان لؤ کڑی ما لالٹین نیولے وینہ
راقم : ساجد ابوتلتان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں