میرا تعلق خیبر پختون خواہ کے ضلع دیر کے ایک ایسی وادی سے ہے جس کے چاروں طرف اونچے اور سرسربز پہاڑ، اور بھیچ میں کمراٹ سے بہنے والی دریا " دریائے پنچکوڑا " بہہ رہا ہے ، میدانی علاقہ کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثر آبادی پہاڑوں میں آباد ہیں ، دن کے اوقات میں اگر ہرے بھرے لہلاتے کھیت ، بچوں کا ہلہ گلہ ، کھیل کھود اور بزرگوں کی محفلیں گاؤں کی رونق ہے تو وہیں رات کو جب مکمل اندھیرا چھا جائے اور بندہ چاروں طرف پہاڑی آبادی میں روشنیوں کو دیکھتا ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ دئیے جل رہے ہوتے ہیں ۔
قارئین ! میں ذکر کر رہا ہوں اپنے گاؤں "خال" کا جو کہ تیمرگرہ سے 15 کلومیٹر کے مسافت پر واقع ہے ، خال چونکہ ماتھے کے بھیچ پر بنایا جاتا ہے تو بلکل اس طرح میرا یہ گاوں ضلع دیر لوئر اور دیر اپر کے بالکل وسط میں واقع ہے اس لئے اس کو خال کا نام دیا گیا ہے ۔
یہاں گھروں میں خواتین کی تیار کردہ ٹوپیاں اور مالٹے اس علاقے کی پہچان ہے ۔
پورا دیر اور خصوصاً ہمارا گاؤں (الحمدللہ) امن و امان کے لحاظ سے مثالی ہے حتی کہ طالبانایزیشن کے دور میں بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کہتے رہے کہ میری فوج دیر میں بغیر کرفیو کے موومنٹ کرتی رہتی ہیں ۔
اب میں آرہا ہوں اصل بات کی طرف ، میں تو خیر اب بھی اتنا بڑا نہیں مگر جب چھوٹا تھا اور میری ماں دھرتی پر دہشت گردی جیسی ناسور مسلط نہیں ہوئی تھی تو مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے گاوں ، محلے کے مساجد میں دنیا کے کونے کونے سے تبلیغ والے آیا کرتے تھے افریقہ ، ملائشیا ، انڈونیشیا اور دیگر یورپی ممالک سے بے خوف و خطر باقاعدگی سے یہاں آتے لوگوں سے گھل مل جاتے ، سیر و تفریح بھی کرتے اور یہاں سے ایک مثبت امیج لیکر بخوشی واپس چلے جاتے تھے ۔
تبلیغ والوں کے ساتھ ساتھ دیگر غیر ملکی سیاح بھی بلکل معمول کے مطابق آیا کرتے وہ اکثر شندور پولو فیسٹیول چترال میں جو منعقد ہوتی ہے اس وقت میں ذیادہ آتے ہمارے گاؤں میں بھی ٹھہرتے ، گھومتے پھیرتے ، بازار سے سودا سلف کرکے سفر پر روانہ ہوجاتے تھے ۔
لیکن پھر کیا ہوا کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی لہر آئی تو (الحمدللہ) ہمارا علاقہ اگرچہ مکمل طور پر محفوظ رہا ہے مگر متاثر ضرور ہوئی اور یہی سلسلہ رُک گیا ۔
پھر بہت طویل جنگ کے بعد ہمارے لوگوں اور مسلح افواج نے قربانیاں دے کر ملک میں دوبارہ امن بحال کردی ، تو یہی وجہ ہے کہ الحمدللہ اب دوبارہ سے ہمارے گاؤں میں بیرونی ممالک سے نہ صرف تبلیغ والے آتے رہتے ہیں بلکہ یہ تحریر اسی موقع پر لکھا جب میں نے اپنے گاؤں کی چھوٹی سی بازار میں یہ یورپی سیاح دیکھے ۔
اور ساتھ میرے گاؤں ہی میں خیبر پختون خواہ حکومت کی جانب سے ایک ڈیم پر کام چل رہا ہے اور اس میں اکثر چائنیز ایمپلائز ہیں جو بالکل بے خوف و خطر کام کررہے ہیں ۔
میں اگرچہ گاوں موجود نہیں لیکن ایک دوست نے یہ تصاویر بھیجی تو بہت خوشی ہوئی ، یہ اگرچہ میں نے صرف اپنے گاؤں کی سٹوری شئیر کی لیکن ایسا پورے ملک کے ساتھ ہے ، اللہ کریں کہ میرے ملک پر وہ خوبصورت وقت پھر سے لوٹ آئے تاکہ ہمیں بھی خوشیاں ، امن مل سکیں اور یہ یہ خوبصورت دھرتی بھی ترقی کرتا چلے ، اپنے لوگ بھی گھومے پھیرے اور غیر ملکی لوگ بھی آکر یہ جنت کا تکڑا
( پاکستان ) دیکھ سکیں ۔
تحریر : عبداللہ سلطان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں