اتوار، 26 مئی، 2019

سوات پاکستان سے پہلے اور بعد میں



    جب 1917ء میں ریاستِ سوات وجود میں لائی گئی ، تو سوات قبائلی طرزِ زندگی سے جدید زندگی میں داخل ہوگیا تھا ۔  قبائلی دشمنیاں اور اختلافات عروج پر تھے ۔ لیکن جدید ریاست کے بانی میاں گل عبد الودود نے قبائلی معاشرہ میں رائج منفی روایات اور لوگوں کی باہمی چپقلشیں دور کر دیں ۔ انھوں نے ریاست میں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے سوات ایک نہایت پُرامن علاقہ بن گیا ۔ 

  ان کے بعد جب 12 دسمبر 1949ء کو ان کے بیٹے اور ولی عہد میاں گل عبد الحق جہانزیب نے ریاست کی باگ ڈور سنبھالی ، تو انھوں نے سوات کو حقیقی معنوں میں ایک جدید فلاحی ریاست کی طرف لے جانا شروع کیا ۔ انھوں نے پورے سوات میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا ، ہسپتال اور سڑکیں تعمیر کیں ، اور سوات کو ایک مضبوط اور منظم انفراسٹرکچر دیا ۔ 

   لیکن جب ریاستِ سوات 28 جولائی 1969ء کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوئی ، تو سوات اور اہلِ سوات کی آزمائش شروع ہوگئی ۔ عوام کے مسائل میں اضافہ ہونے لگا ، اور جو لوگ ایک مثالی ریاست کے قوانین اور انصاف کے عادی تھے ، وہ عدالتوں میں رُلنے لگے ۔

    سوات کے مثالی انفراسٹرکچر کی حفاظت نہیں کی گئی ، بلکہ ہر آنے والا دن سوات اور اہلِ سوات کے لیے نت نئے مسائل لے کر طلوع ہونے لگا ۔ سڑکوں کی حالت ابتر ہوتی گئی ۔ سیاحتی سہولتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ امن و امان کی صورتِ حال بھی بہتر نہ رہی ۔ سوات کا مرکزی شہر مینگورہ شور ، آلودگی اور گندگی کا ڈھیر بنتا گیا ۔

    ریاستی دور میں ایک سال کے دوران میں کوئی ایک آدھ قتل یا چوری کا واقعہ رپورٹ ہوتا تھا لیکن پاکستان میں شامل ہونے کے بعد یہ واقعات درجنوں اور سیکڑوں میں رونما ہونے لگے ۔ عوام میں مایوسی اور بد دلی پھیلتی گئی ۔ یہاں پاٹا ریگولیشن کے نام سے انتظامی امور چلائے جانے لگے ، جن میں اہلِ سوات پاکستان میں رائج بعض آئینی حقوق سے محروم رکھے گئے ۔ نتیجے میں عوام میں مایوسی اور بددلی آخری حدود کو چھونے لگی ۔

    اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جب 18 جولائی 1989ء میں مولانا صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے نام سے ملاکنڈ ڈویژن میں شریعت کے نفاذ کے لیے تحریک شروع کی ، تو یہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں امن و امان کی مجموعی صورتِ حال خراب کرنے کا آغاز تھا ۔

   کیوں کہ اس تحریک کی سرگرمیوں کا بڑا مرکز سوات بن گیا تھا ۔ بعد ازاں ان کے داماد ملا فضل اللہ نے سوات اور اہلِ سوات کے ساتھ جو کچھ کیا ، وہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں ہے ۔ اس دوران میں رونما ہونے والے خونیں واقعات اب بھی اہلِ سوات کے ذہنوں میں تازہ ہیں ۔

   اس تمام تر صورتِ حال میں افسوس ناک اَمر یہ ہے کہ جب سوات میں بدامنی اور لاقانونیت پھیل رہی تھی ، تو مقامی انتظامیہ باقاعدہ موجود اور فعال تھی ، سکیورٹی ادارے اور حساس ایجنسیاں وجود رکھتی تھیں ، لیکن ملا فضل اللہ اور اس کے حامیوں کی شدت پسندی اور دہشت گردی کو بروقت نہیں روکا گیا ، بلکہ یوں لگتا تھا جیسے بعض ریاستی ادارے کسی منصوبہ بندی کے تحت سوات میں طالبانائزیشن پیدا کرنا اور پھیلانا چاہتے ہیں ۔

     اس لیے حالات کو اس نہج تک پہنچایا گیا کہ فوجی آپریشن کے دوران میں سوات سے اٹھارہ بیس لاکھ لوگوں کو بے گھر کرکے آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کردیا گیا ۔ اِس وقت اگرچہ بہ ظاہر سوات میں امن قائم کیا گیا ہے ، لیکن اب سوات وہ پرانا سوات نہیں رہا ہے ۔

    سوات کے جو لوگ آئی ڈی پیز بنے تھے ، اور تین چار مہینوں کے بعد جب وہ واپس سوات اپنے گھروں کو لوٹے ، تو ان میں بہت سی منفی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں ۔ سوات کے لوگ نسل در نسل ایک خاص قسم کے یوسف زئی پختون روایات پر کاربند تھے، لیکن حالیہ شورش نے ان سے وہ روایات چھین لی ہیں۔  لالچ ، بغض ، عناد اور پیسوں کی ہوس نے ان میں گھر کرلیا ہے ۔ برداشت ، رواداری اور مہمان نوازی جیسی صفات ان میں بہت کم رہ گئی ہیں ۔

   اس کے علاوہ ملک کے دوسرے علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ مذکورہ خامیوں سمیت سوات میں مستقل طور پر رہائش پزیر ہوئے ہیں جس نے ہمارے روایتی سواتی معاشرے کی مثبت اقدار کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ سکیورٹی اداروں نے امن کے نام پر لوگوں کے ساتھ جو ناروا اور نامناسب سلوک روا رکھا ہے ، اس نے بھی عام لوگوں کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں ۔ 

                  تحریر: شاعر، ادیب اور صحافی فضل ربی راہیؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں