نباتاتی بیجوں یا حیوانوں کی چربی سے تیار کردہ چکنا مائع جو کھانے کےلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ چکنائی ، روغن یا تیل کہلاتا ہے ۔ تیل اس سیال مصنوعہ کو بھی کہتے ہیں جو کیمیائی طور پر مالش یا خوشبو کے واسطے تیار کیا جاتا ہے ۔ اس طرح معدنی سیال جسے صاف کرکے ایندھن یا مشینی توانائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسے پیٹرولیم تیل ہی ہے ۔ لیکن ہمارا موضوع وہ خوردنی تیل ہے جو اس زرد پھول والے پودے کے مہین گول نسواری رنگت کے بیج سے نکلتا ہے ، جس کی کھیت کا نظارہ فرحت بخش ہے اور ساگ اس کا مکئی کی روٹی کے ساتھ شوق سے کھائی جاتی ہے ۔
گزشتہ دور میں تیل زیادہ استعمال ہوتا تھا اسلئے سرسوں وافر مقدار میں کاشت ہوتی تھی ۔ فضل پک جاتی تو کسان اس کا بیج نکال کر اسے تیلی کے ہاں لے جاتے تھے ۔ تیلی وہ شخص تھا جو بیجوں کو کولھو میں پھیل کر اس سے خوردنی تیل بناتا تھا ۔ تیلی کے گھر میں کولھو یعنی تیل کی گھانی ہوتی تھی ۔کولھو ایک عجیب مشین تھی ۔ چار پانچ فٹ چوڑی اور نو دس فٹ اونچی لکڑی جس کا چھ فٹ حصہ زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا جاتا تھا اور کے حصے میں ایک بغارہ ( مقامی نام کاسہ ) بنایا جاتا تھا ۔ جس میں اوپر سے ایک مضبوط لکڑی جس کا نچھلا سراگول چکنی ہوتا تھا ٹھونس دیا جاتا تھا ۔ کاسہ کے اوپر اس لکڑی کے ساتھ ایک تختہ بھی لگایا جاتا تھا جس پر وزن کےلئے پتھر رکھتے تھے ۔ جبکہ لکڑی کے دوسرے سرے سے گاوخراس ( بیل ) باندھ دیا جاتا تھا ۔ کولھو میں جوتے جانے والا یہ بیل مسلسل چکر لگاتا تھا اور کاسہ میں بیج پیل کر تیل بہتا تھا جو ایک نالی کے ذریعے بہہ کر مجانی میں جمع ہوتا تھا۔ جب گھانی ختم ہوجاتی تو تیلی مجانی کا تیل کسان کے برتن میں ڈالتا اور سرسوں کا کھل کاسے سے نکال کر مزدوری کے طور پر اپنے پاس رکھتا اگر کوئی کسان کھل نہ دیتا تو وہ فی گھانی آٹھ آنے ادا کر کے اپنا کھل لے جاتا تھا ۔ تیلی سخت محنت کش عادی تھا ۔ وہ فارغ اوقات میں کوئی دوسرا کام بھی کرتا تھا ۔ جیسے اپنے گاوں قرحسن تیلی چارپائیوں کے پاوں چرخ کیا کرتے تھے اور مختلف گاوں میں کولھو بھی مرمت کرتے تھے ۔ اس سے زیادہ اگر کچھ ملتی تو وہ مجانی کی تہہ میں جمع شدہ تیل کا میل ہی ہوتا تھا ۔ جیسے وہ علیحدہ برتن میں جمع کرتے ، میل مزید بیٹھ جاتا اور تیل اوپر آتا ۔ بیل بے چارہ بھی تو کولھو میں جوتنے کے بعد لگاتار چکر لگاتا تھا ۔ آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی تاکہ گول گھومنے کی وجہ سے چکر نہ آئے یا وہ رک نہ جائے اس طرح وہ صبح سے شام تک اس طرح چلتا رہتا تھا ۔ اپنی دانست میں وہ میلوں کا سفر طے کرتا تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہوتا تھا کہ وہ ایک محدود جگہ پر چکر لگاتا رہتا تھا ۔ جبھی تو بے وقوف کو کولھو کا بیل کہتے ہیں ۔
اس بابت ایک لطیفہ یاد آیا کہ " کسی وکیل نے ایک تیلی سے پوچھا ، آپ بیل کے گلے میں گھنٹا کیوں باندھتے ہیں؟ تیلی نے جواب دیا تاکہ پتہ چلے کہ گھانی چل رہی ہے اور میں دیگر کام کر سکوں ۔ وکیل نے پھر پوچھا ، بیل کو کیا پتہ کہ مالک کھڑا ہے یا نہیں ، تیلی نے ترنت جواب دیا، صاحبو ! یہ بیل ہے آپ کی طرح وکیل نہیں ۔
قارئین! کسان جب تیل گھر لے جاتا تو اسے ہانڈی میں ڈال کر تیز آگ پر گرم کرتا ساتھ ہی میٹھا کرنے کےلئے اس میں پیاز کا چھلکا بھی ڈالتا تھا ۔ جسے پشتو میں ( تیل ٹقول ) کہتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ دوست و احباب اور رشتہ داروں کا حصہ دے کر باقی تیل اپنے استعمال کےلئے رکھتا ۔
تیل کھانا پکانے ، روغنی ٹکیا ( تیل بخی ککوڑی ) پکانے ، چراغ جلانے ، مالش کرنے ، کان میں ڈالنے ، نرم کرنے کےلئے کسی شے پر ملنے ، نوزائیدہ بچے پر ملنے ، زخم کو دابنے اور بالوں پر لگانے وغیرہ کے کام آتا تھا ۔ تیل قابل حرمت بھی تھا ۔ جیسے " تیل ماش اتاونا " تبرک کی علامت تھی ۔ بڑے بوڑھوں سے سنا یہ وہ عمل ہے جس میں اپنے عزیز یا رشتہ دار کے سفر سے بخیر و عافیت واپسی پر ایک برتن میں ماش بھر کر اس پر تیل ڈالتے ہیں اور مسافر اس میں اپنا منہ دیکھتا ہے پھر یہ صدقہ کے طور پر کسی مسکین ، فقیر یا خاکروب کو دے دیا جاتا تھا ۔
درجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تیلی ہر گاوں کےلئے اہم تھا ۔ یہ ہنر مند اور محنت کش شخص دیہی زندگی میں ایک فعال کردار ادا کرتا تھا ۔ گوکہ کولھو کا زمانہ گزر چکا ہے ۔ لیکن قرحسن ، مقرب ، درانے ، ہمیش گل ، خواست فقیر ، مینجور گل اور عبدالرحمان کے نام ایسی پیشے کے حوالے سے یاد کیے جائیں گے ۔ جن کی خدمات کا ایک زمانہ قائل ہے ۔
قارئین کرام ، جاتے جاتے یہ حساب بھی بے باق کرتا چلوں کہ تیل ، تیلی اور کولھو سے متعلق تحریر میں درج شدہ معلومات پچاسی سالہ ہمیش گل تیلی اور جانان دکاندار سے حاصل کی گئی ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں