حصول علم بے شک بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر معاشرتی نظام درہم برہم ہوتا ہے اور لوگ نظم و ضبط کی پابندی نہیں کرتے ۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہم جنگ بدر کے بعد قیدیوں کی رہائی کے شرط سے لگا سکتے ہیں ۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے ہر قیدی پر لازم کیا تھا کہ وہ دس دس مسلمان بچوں کو پڑھا کر قید سے رہائی حاصل کرے ۔ یعنی ایک مسلمان ایک غیر مسلم سے پڑھنا ، لیکھنا اور سیکھ سکتا ہے ۔ پڑھانے والا معلم استاد کہلاتا ہے جسے اسلام میں ایک روحانی تقدس حاصل ہے ۔ اس لئے استاد کو روحانی باپ کہتے ہیں ۔
آج کل استاد اور شاگرد کا رشتہ کس ڈگر پر کھڑا ہے ۔ ایک شاگرد اپنے شاگرد ہونے کا کہاں خیال رکھتا ہے اور ایک معلم کو معلمی کا کس قدر خیال ہے یہ ہر ایک کےلئے سوالیہ نشان ہے ۔ اس کے بے شمار وجوہات ہوسکتے ہیں لیکن میری نظر میں سب سے بڑی وجہ بچوں کے ساتھ روا رکھنے والا سخت رویہ اور مار پیٹ ہے ۔ المیہ یہ نہیں کہ استاد تشدد کیوں کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ تشدد پسندی کا عنصر تعلیمی اداروں تک کیسے پہنچا ۔ کیا ہمارے معاشرے میں ہر کام ڈنڈے کے ذریعے ممکن ہے ۔ میری خیال نہیں ہمارے روزمرہ کے کاموں میں ڈنڈے کا استعمال نہیں ہوتا ۔ ماسوائے پولیس کے جو ریمانڈ اور لاٹھی چارج کے موقعوں پر ڈنڈا چلاتے ہیں لیکن نہ تو پورا معاشرہ مجرم ہیں اور نہ ہی لوگ ہر وقت احتجاج کرتے ہیں ۔ استاد اور شاگرد تو اس معاشرے میں رہتے ہیں یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں ہے ۔ تو پھر تعلیمی اداروں میں مار پیٹ کیوں ہوتی ہے ۔
ایک معلم کے پاس بچے کو مارنے کےلئے ڈھیر سارے وجوہات ہوتے ہیں مثلاً بچہ سبق یاد نہیں کرتا ، بہت زیادہ شور کرتا ہے ، کسی مضمون میں دلچسپی نہیں لیتا ، وقت پر سکول نہیں پہنچتا ، گھر کا کام نا مکمل ہے ، کتاب ، کاپی ، قلم اور پنسل وغیرہ نہیں ہے ۔ بے شمار ایسے وجوہات ہیں جن سے استاد کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے اسلئے وہ بچوں کو مارتے ہیں لیکن ان تمام مسائل کا حل محض مار دھاڑ نہیں ہے ۔
بعض اساتذہ حقیقت پسندی سے مثالیت پسندی زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ وہ ایک ذہین بچے کو مثال بنا کر ہر بچے کو اس طرح دیکھنا چاہتے ہیں جب وہ ان کی طرح نہیں ہوجاتے تو مار پڑتی ہیں ۔ بعض مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ جذباتی اور جلد باز ہوتے ہیں وہ مختصر عرصہ میں زیادہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تو ان کو جو بچے نتائج دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ کھاتے ہیں ۔ مار کھانے سے کھبی کھبی بچوں کی ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں جبکہ بعض بچے مار کی وجہ سے اپاہج اور ذہنی مریض بھی بن جاتے ہیں ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر بچہ منفرد خوبیوں کا مالک ہوتا ہے ۔ بچوں کے رجحانات ، معاشی اور سماجی حالت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ جس کےلئے ہر بچے کا انفرادی تجزیہ کرنا لازمی ہے ، لیکن اس کےلئے ایک استاد کو ماہر نفسیات ہونا چاہئے ۔ یاد رکھیں ، ایک شفیق استاد کی عزت کی جاتی ہے بچے ان کا احترام کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ادب سے پیش آتے ہیں ۔ معاشرے میں بھی ان کی عزت اور وقار کا بھرم رکھتا ہے ۔
لہذا بچوں کو ایذا رسانی سے بچائیے خاص کر سکول کے ننھے منھے پیارے پھولوں کو ۔ اس سے معلم کا وقار بڑھے گا اور علم کا بھی کیوں کہ ہم نے ایک اصلاح پسند نسل تیار کرنا ہے ۔ استاد کو چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں کو پیار سے پڑھائے اور ان کی ہر مشکل کا حل ڈھونڈ کر نکالے ۔
تحریر : ریحانہ سیراج
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں