بدھ، 22 مئی، 2019

معصوم فرشتہ کے قاتل کیسے ملیں گے




     اسلام آباد کی معصوم بچی فرشتہ مہمند شہید جس درندگی اور وحشت کا نشانہ بنی ہے اس پر ہم بھی پوری قوم کے اجتماعی کرب و اضطراب میں شریک ہیں مگر جب کچھ لکھنے کے لیے قلم پکڑا تو دماغ ماؤف سا ہوگیا ہے کہ کیا لکھوں ، کیسے لکھوں اور کس کو لکھوں ۔۔۔؟

     کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ یہ درندگی کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اب تو ایسی شرمناک اور وحشتناک وارداتوں کی لائن ہی لگتی جا رہی ہے ۔ خدا جانے ہماری اجتماعی بد اعمالیاں ، بے حسی بلکہ سنگدلی اور کیا کیا گل کھلائے گی ۔

    جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کسی یہودی نے ایک معصوم بچی کے گلے میں ہار دیکھ کر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیس کی خود تفتیش فرمائی تھی اور مجرم کو گرفتار کر کے اس کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان کچل کر رکھ دیا تھا ۔ مگر یہ روایات اب ہمارے لیے خدانخواستہ اجنبی ہوتی جا رہی ہیں ، ہم نام نہاد تہذیب و تمدن اور سولائزیشن کے اس دور میں رہتے ہیں جسے ’’اینڈ آف دی ہسٹری‘‘ کہا جاتا ہے اور جس میں سزا میں سختی کو تو انسانی عزت نفس کے منافی سمجھا جاتا ہے مگر شرف و عزت اور تحفظ و وقار کے سارے حقوق قاتلوں ، ڈاکوؤں ، درندوں ، بدکاروں اور لٹیروں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں ۔

   ابھی لاہور کے دانشور دوست پروفیسر رفرف صاحب نے ایک پوسٹ بھجوائی ہے اسی کو اپنے احساسات اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنا رہا ہوں:
  ’’نواب کالاباغ بڑے سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے ۔ ان کے دور میں لاہور میں ایک پانچ سالہ بچہ اغوا ہوگیا ۔ نواب صاحب نے ایس ایس پی کو بلوا کر چوبیس گھنٹے کے اندر بچہ برآمد کرنے کا حکم دیا ۔ چوبیس گھنٹے گزر گئے مگر بچہ برآمد نہ ہوا تو نواب صاحب نے اگلے دن اے ایس پی ، ایس پی اور ایس ایس پی کے بچے منگوائے اور کالاباغ بھجوا دیے اور اعلان کیا کہ جب تک پولیس اغوا شدہ بچہ برآمد نہیں کرے گی اس وقت تک ان افسروں کے بچے انہیں واپس نہیں ملیں گے ۔ یہ نسخہ کامیاب ہوگیا اور پولیس نے اسی دن بچہ برآمد کر لیا ۔ نواب صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک عوام کے مسئلہ کی تکلیف بیوروکریسی تک نہیں پہنچتی افسر اس وقت تک وہ مسئلہ حل نہیں کرتے "۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں